نفرت انگیز تقریر کے خلاف عالمی دن: مکالمے کو فروغ دینے اور شدت پسند نفرت انگیزی روکنے کی اپیل
دنیا بھر میں نفرت انگیز تقاریر کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث 18 جون کو منایا جانے والا "نفرت انگیز تقریر کے خلاف عالمی دن” اب پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اس دن کا مقصد لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ نفرت انگیز باتیں نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ عالمی امن اور انسانوں کے بنیادی حقوق کو بھی متاثر کرتی ہیں۔
یہ دن اقوام متحدہ نے اس لیے منایا تاکہ تحریر، تقریر یا عمل کی صورت میں سامنے آنے والی ہر قسم کی نفرت انگیزی کے خطرات سے آگاہی دی جا سکے، اور ایسی کوششوں کی حمایت کی جا سکے جو برداشت، رواداری اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کے کلچر کو فروغ دیتی ہیں۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا اور میڈیا پلیٹ فارمز پر شدت پسند بیانیے تیزی سے پھیل رہے ہیں، جو لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں اور تشدد و نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نفرت انگیز گفتگو اب صرف نفرت ظاہر کرنے کا طریقہ نہیں رہی، بلکہ یہ ایک ہتھیار بن چکی ہے جسے سیاسی یا معاشی مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سے معاشرے میں ٹکراؤ، تشدد اور انتشار جنم لیتا ہے۔
اقوام متحدہ نے جون 2019 میں نفرت انگیز تقریر کے خلاف ایک عالمی حکمت عملی متعارف کروائی تھی، جس میں حکومتوں، میڈیا، سول سوسائٹی اور ٹیکنالوجی کمپنیوں سے کہا گیا کہ وہ باہمی تعاون سے اس مسئلے کا مقابلہ کریں، لیکن ساتھ ساتھ اظہار رائے کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کا خیال بھی رکھیں۔ اس کا حل صرف پابندیوں سے نہیں، بلکہ تعلیم، مکالمہ، اور آگاہی سے ممکن ہے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر میں اکثر غلط معلومات اور دوسرے لوگوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا عنصر ہوتا ہے، جو معاشرتی امن کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ یہ نہ صرف افراد کو بلکہ پورے گروہوں کو نشانہ بناتی ہیں اور معاشرے میں پھوٹ ڈالتی ہیں۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ میڈیا ادارے آزادی اظہار کا سہارا لے کر نفرت پھیلانے والے مواد کو عام کر رہے ہیں، جس سے عوام گمراہ ہوتے ہیں اور اقلیتوں پر ظلم کو جواز دیا جاتا ہے۔ اس لیے میڈیا کو چاہیے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور صحافتی اصولوں کا خیال رکھے۔
مبصرین نے مغربی دنیا میں "اسلاموفوبیا” (اسلام سے نفرت) کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بھی تشویش ظاہر کی ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے وجود کو اپنے معاشرے کے لیے خطرہ بنا کر پیش کرتی ہیں، حالانکہ اسلام امن، انصاف اور رحم کا مذہب ہے اور معاشرے میں استحکام کا سبب بن سکتا ہے، نہ کہ خطرہ۔
اسی لیے ضروری ہے کہ اسلام کی اصل تعلیمات کو تعلیم، میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے عام کیا جائے، کیونکہ نفرت کی سب سے بڑی وجہ جہالت ہے۔ اس کے ساتھ ہی عرب اور اسلامی دنیا کو بھی چاہیے کہ وہ مل کر فکری و ثقافتی چیلنجز کا مقابلہ کرے جو ان کی مذہبی شناخت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی معاہدے، جیسے کہ "بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق”، واضح طور پر نفرت پھیلانے کی ممانعت کرتے ہیں۔ اس لیے دنیا بھر کی حکومتوں اور اداروں کو سنجیدہ اقدامات کرنے چاہییں تاکہ نفرت کو فروغ دینے والوں کو روکا جا سکے، اور ایسا ماحول بنایا جا سکے جہاں تنوع اور امن کی قدر کی جائے۔