اقوامِ متحدہ کے ادارے "اوچا” (OCHA) نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان میں تاریخ کا سب سے بڑا غذائی بحران جاری ہے۔ اوچا کے مطابق، جاری لڑائی اور سہولیات کے نظام کے تباہ ہونے کی وجہ سے 6 لاکھ 38 ہزار سے زائد افراد بھوک کے خطرناک ترین مرحلے پر پہنچ چکے ہیں۔
اوچا نے ایک بیان میں بتایا کہ 2025 کے لیے جو امدادی منصوبہ بنایا گیا تھا، اس کا ہدف 1 کروڑ 65 لاکھ افراد تک مدد پہنچانا تھا، لیکن اپریل کے آخر تک صرف 47.5 فیصد لوگوں تک ہی مدد پہنچ سکی، جن میں 5 لاکھ سے زائد ایسے افراد بھی ہیں جو قحط کے خطرے والے علاقوں میں رہتے ہیں۔
یہ انتباہ ایسے وقت میں آیا ہے جب اقوامِ متحدہ کی دو اہم تنظیموں، "فاو” (FAO) اور "ورلڈ فوڈ پروگرام” (WFP) کی رپورٹ کے مطابق، سوڈان کو دنیا کے 5 سب سے خطرناک بھوک کے شکار علاقوں میں شامل کیا گیا ہے۔ دیگر ممالک میں فلسطین، جنوبی سوڈان، ہیٹی اور مالی شامل ہیں، جہاں لوگ شدید بھوک اور ممکنہ موت کا سامنا کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب، بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین نے بتایا ہے کہ جنوبی کردفان کے ضلع "القوز” کی دیہاتی آبادی میں سے 2 ہزار سے زیادہ خاندان لڑائی اور بدامنی کے باعث اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں، اور زیادہ تر لوگ شمالی کردفان کی طرف چلے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ سوڈان میں اپریل 2023 سے فوج اور "ریپڈ سپورٹ فورسز” کے درمیان مسلح جھڑپیں جاری ہیں، جن میں اب تک اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق 20 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ آزاد تحقیقاتی اداروں کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد 1 لاکھ 30 ہزار سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، ملک میں 1 کروڑ 50 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور صحت و انسانی سہولیات مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں، جب کہ سیاسی حل کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔