اسلامی دنیاخبریںسعودی عرب

سعودی صحافی ترکی الجاسر کو پھانسی دینے پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی مذمت – اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ قرار

انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے سعودی عرب کی جانب سے صحافی ترکی الجاسر کو پھانسی دیے جانے کی سخت مذمت کی ہے۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ پرامن مخالفین کو دبانے کی خطرناک کوشش بھی ہے۔

لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم "القسط” نے ایک بیان میں بتایا کہ ترکی الجاسر کو 14 جون 2025 کو اچانک پھانسی دے دی گئی، حالانکہ وہ 2018 سے جبری طور پر لاپتہ تھے۔ ان پر دہشت گردی، غداری اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے جیسے مبہم الزامات لگائے گئے تھے۔ القسط نے کہا کہ یہ پھانسی سعودی حکومت کی جانب سے پرامن مخالفین کو کچلنے کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔

سعودی وزارت داخلہ نے کہا کہ ترکی الجاسر کو دہشت گردی، غیر ملکی اداروں سے رابطے، اور ریاست مخالف سرگرمیوں کے لیے پیسہ لینے جیسے جرائم میں سزا دی گئی۔ مگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ الزامات اصل میں اظہارِ رائے کی آزادی کو جرم بنانے کے لیے استعمال کیے گئے۔

ترکی الجاسر ایک صحافی تھے اور "التقریر” نامی اخبار میں لکھتے تھے۔ مارچ 2018 میں اُن کے گھر پر چھاپہ مار کر اُنہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ پھر کئی سال تک ان کے بارے میں کوئی خبر نہ ملی۔ صرف ایک بار فروری 2020 میں وہ اپنی فیملی سے رابطہ کر سکے، اس کے بعد دوبارہ لاپتہ ہو گئے اور اُن کی قانونی حیثیت یا قید کی جگہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی (نیویارک) نے کہا کہ یہ پھانسی صحافت کی آزادی پر سنگین حملہ ہے، جب کہ سعودی اپوزیشن کی تنظیم "سند” نے کہا کہ یہ ایک اور ظلم ہے جو سعودی عرب میں جاری دباؤ اور زیادتیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے مطابق ترکی الجاسر کو منصفانہ ٹرائل نہیں ملا، بلکہ بغیر وجہ کے قید میں رکھا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور صرف اپنے خیالات کے اظہار کی وجہ سے سزا دی گئی۔

یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب سعودی عرب میں پھانسیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف 2025 کے آغاز سے اب تک 100 سے زیادہ پھانسیاں دی جا چکی ہیں، جب کہ 2024 میں 338 افراد کو پھانسی دی گئی، جو سعودی عرب کو دنیا کے ان ممالک میں شامل کرتا ہے جہاں سب سے زیادہ پھانسیاں دی جاتی ہیں، جیسے کہ چین اور ایران۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایسی کارروائیاں سعودی عرب کی جانب سے "ویژن 2030” کے تحت اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوششوں سے براہ راست متصادم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کی آواز دبانا کسی بھی اصلاحاتی منصوبے کا حصہ نہیں ہو سکتا۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button