اسلامی دنیاتاریخ اسلاممقالات و مضامین

عید غدیر: نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ  کی رسالت کی تکمیل اور دشمنانِ دین کی مایوسی کا دن

غدیر خم کا واقعہ اسلام کی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ 18 ذوالحجہ 10 ہجری کو نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اپنے بعد اپنا ولی، جانشین اور امت کا رہبر مقرر فرمایا۔ اس موقع پر صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔

 میرے ساتھی کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں

غدیر خم کا واقعہ کوئی عام تاریخی واقعہ نہیں بلکہ انسانیت کی رہنمائی اور ہدایت کے سلسلے میں ایک بنیادی فیصلہ تھا۔ یہ واقعہ دراصل انسانوں کے مقدر کا تعین کرنے والا دن تھا۔

شیعہ احادیث میں اس دن کو مختلف عظیم القابات سے یاد کیا گیا ہے جیسے:

* عیدُاللّٰہِ الاکبر (اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی عید)

* عید اہل بیت محمد علیہم السلام

* اشرف الاعیاد (تمام عیدوں میں سب سے اعلیٰ و برتر)

دنیا بھر میں شیعہ مسلمان اس دن کو عقیدت و احترام سے مناتے ہیں اور گوناگوں تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ خاص طور پر حالیہ صدیوں میں یہ عید بہت شاندار اور منظم انداز میں منائی جاتی ہے اور یہ دن تشیع کی شناخت میں ایک مرکزی علامت بن چکا ہے۔

قرآنِ کریم کی سورۃ المائدہ کی آیت 67، جسے "آیہ تبلیغ” کہا جاتا ہے، میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ  کو واضح حکم دیا کہ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان کریں، اور اگر یہ اعلان نہ کیا گیا تو گویا رسالت مکمل نہیں ہوئی:

"اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی جانب سے آپ پر نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دیجیے، اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اپنے رب کا پیغام ہی نہیں پہنچایا۔” (سورۃ المائدہ، آیت 67)

یہ تاریخی واقعہ اُس وقت پیش آیا جب نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ  اپنے آخری حج سے واپسی پر تھے۔ اس حج کو اسلامی تاریخ میں مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، جیسے:

* حجۃ الوداع (الوداعی حج)

* حجۃ البلاغ (تبلیغ کا حج)

* حجۃ الاسلام (اسلامی حج)

* حجۃ التمام (تکمیل کا حج)

غدیر خم کا مقام ایک چوراہا تھا، جہاں کچھ لوگ آگے بڑھ چکے تھے اور کچھ ابھی پہنچے نہ تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے ان لوگوں کو واپس بلایا اور اُن کا انتظار فرمایا جو پیچھے تھے، یہاں تک کہ سب جمع ہو گئے۔

روایات کے مطابق، وہاں 90 ہزار سے 144 ہزار افراد موجود تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کیا اور فرمایا:

"اے لوگو! کیا میں تم پر تمہاری اپنی جانوں سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟”

سب نے کہا: "جی ہاں، اے اللہ کے رسول!”

تب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا:

"جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی بھی مولا ہے۔”

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ  نے یہ جملہ تین بار دہرایا، پھر دعا فرمائی:

"یا اللہ! جو علی سے محبت کرے، تُو بھی اس سے محبت کر۔ جو علی سے دشمنی رکھے، تُو اس سے دشمنی رکھ۔ جو علی کی مدد کرے، تُو اس کی مدد کر، اور جو علی کو چھوڑ دے، تُو اسے بھی چھوڑ دے۔”

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے حاضرین سے فرمایا:

"جو لوگ یہاں موجود ہیں، وہ اس پیغام کو اُن لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں۔”

اسی وقت سورۃ المائدہ کی آیت 3 نازل ہوئی، جو "آیہ اکمال” کے نام سے مشہور ہے:

"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی، اور تمہارے لیے دینِ اسلام کو بطورِ دین پسند کیا۔” (سورۃ المائدہ، آیت 3)

یہ بات یقینی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کا اعلان صرف غدیر خم میں نہیں ہوا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  نے اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین قرار دیا تھا۔

پہلی بار، بعثت کے تین سال بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ  کو اپنے قریبی عزیزوں کو دعوت دینے کا حکم ملا (سورۃ الشعراء، آیات 214-216)، اُس موقع کو یوم الدار یا یوم الانذار کہا جاتا ہے۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو، جو اُس وقت صرف 15 برس کے نوجوان تھے، اپنا جانشین قرار دیا۔

اسی طرح، حدیثِ منزلت، جو اہلِ سنت اور اہلِ تشیع دونوں کے نزدیک متواتر اور معتبر روایت ہے، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  نے فرمایا:

"اے علی! تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔”

یہ حدیث مختلف مواقع پر بیان ہوئی، جیسے:

* غزوہ تبوک (9 ہجری)

* عقد اخوت (بھائی چارے کا معاہدہ)

* ولادت امام حسن اور امام حسین علیہم السلام

* جنگ خیبر

* واقعہ سدّ الابواب (جب تمام دروازے مسجد کے بند کیے گئے سوائے حضرت علی علیہ السلام کے گھر کے دروازے کے)

یہ تمام واقعات غدیر کے علاوہ ہیں اور ان میں بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ  نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین اور ولی قرار دیا۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ واقعہ غدیر نہ صرف شیعہ کتب میں بلکہ اہل سنت کی مشہور کتابوں میں بھی متواتر (مسلسل سند سے) درج ہے۔ علما، محدثین، مورخین، اور شعرا نے اس عظیم واقعہ پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے سب سے مشہور اور جامع کتاب "الغدیر” ہے، جسے علامہ عبدالحسین امینی رحمۃ اللہ علیہ نے تالیف فرمایا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button