یورپ

برطانیہ میں متنازعہ قانون، اسلام کی توہین کو "آزادیٔ اظہارِ رائے” کہہ کر تحفظ دینے کی کوشش

برطانیہ میں متنازعہ قانون، اسلام کی توہین کو "آزادیٔ اظہارِ رائے” کہہ کر تحفظ دینے کی کوشش
برطانوی پارلیمنٹ میں ایک نیا قانون تجویز کیا گیا ہے جس پر دنیا بھر کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں نے غصے اور حیرت کا اظہار کیا ہے۔ اس قانون کو برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی (تحفظ پسند جماعت) کے رکنِ پارلیمنٹ نک ٹموتھی نے پیش کیا ہے۔ اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ قرآنِ مجید کو نذرِ آتش کریں یا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ کی شان میں گستاخی کریں، انہیں سزا نہ دی جائے۔ نک ٹموتھی نے اس عمل کو "آزادیٔ اظہارِ رائے کا حق” قرار دیا ہے۔
یہ متنازعہ قانون صرف ان لوگوں کو قانونی تحفظ نہیں دیتا جو اسلام کی مقدس ہستیوں اور شعائر کی توہین کرتے ہیں، بلکہ برطانوی دارالعوام (برطانیہ کا ایوانِ زیریں) میں بھی ان حرکتوں پر بحث اور مذمت سے روکتا ہے۔ اس مجوزہ قانون کے مطابق قرآن جلانے جیسے عمل کو "رائے کے اظہار” کا حصہ سمجھا جائے گا، جو مذہبی ہم آہنگی اور اخلاقی اقدار کے سراسر خلاف ہے۔
پارلیمنٹ میں نک ٹموتھی نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ کی توہین کو وہ کوئی مسئلہ نہیں سمجھتے، اور ان کے بقول، اسلام کا احترام برطانوی قانون کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ان کے اس بیان پر مسلمانوں اور انسانی حقوق کے تحفظ کی عالمی تنظیموں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے، جس میں اسے اسلام مخالف نفرت (اسلاموفوبیا) کو قانونی تحفظ دینے کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔
یہ قانون ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب حال ہی میں کچھ افراد کو عوامی مقامات پر قرآنِ کریم کو نذرِ آتش کرنے پر عدالتی سزائیں سنائی گئی تھیں، جن پر مسلم برادری نے شدید احتجاج کیا تھا۔ اب اس نئے قانون کو ان توہین آمیز اقدامات کو قانونی حیثیت دینے اور سیاسی پناہ فراہم کرنے کی کوشش سمجھا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ قانون منظور ہوا تو یہ برطانیہ کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے خلاف ہوگا، جو کہ مذاہب اور عقائد کے تحفظ سے متعلق ہیں۔ اس سے نفرت انگیزی کو فروغ ملے گا اور پرامن بقائے باہمی کا تصور مجروح ہوگا۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button