عراق

اسپایکر قتل عام کی گیارہویں برسی: شہداء کے ورثاء انصاف، یادگاروں اور تعلیمی نصاب میں شمولیت کے منتظر

اسپایکر قتل عام کی گیارہویں برسی: شہداء کے ورثاء انصاف، یادگاروں اور تعلیمی نصاب میں شمولیت کے منتظر

عراقی عوام نے بروز بدھ، 12 جون، اسپایکر کے سانحے کی گیارہویں برسی منائی، جو جون 2014 میں داعش کی دہشت گـرد جماعتوں نے انجام دیا تھا۔ اس سانحے میں تقریباً دو ہزار فضائیہ کے زیرِ تربیت طلباء کو صوبہ صلاح الدین میں واقع اسپایکر ایئر بیس سے اغوا کر کے نہایت بے دردی سے قتل کیا گیا تھا، جو کہ عراق کی جدید تاریخ کے بدترین قتلِ عام میں سے ایک ہے۔

ملک کے مختلف شہروں میں اس موقع پر تقاریب کا انعقاد کیا گیا جن میں شہداء کے لواحقین، عام شہریوں اور سماجی کارکنوں نے شرکت کی۔ شرکاء نے ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ اس سانحے کو قومی حافظے کا مستقل باب بنایا جائے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ شہداء کی یاد میں سرکاری سطح پر یادگاریں قائم کی جائیں، اور تعلیمی نصاب میں یہ واقعہ شامل کیا جائے، تاکہ اس بربریت کی یاد تازہ رہے، شہداء کی عزت محفوظ رہے اور اس دہشت گـردی کے پیچھے موجود تکفیری نظریے کا پردہ فاش کیا جا سکے۔

"شیعہ نیوز ایجنسی” سے بات کرتے ہوئے شرکاء نے کہا کہ "اسپایکر کا زخم آج بھی عراقی قوم کے دل میں تازہ ہے، اور اگرچہ کچھ مجرموں کو سزائے موت دی گئی ہے، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس جرم کو بھلا دیا جائے، بلکہ یہ واقعہ اجتماعی شعور میں زندہ رہنا چاہیے تاکہ یہ مظلوم نوجوانوں پر ہونے والے ظلم کا مستقل گواہ بنے۔”

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اس قتلِ عام کے زیادہ تر متاثرین کا تعلق وسطی اور جنوبی عراق کے شیعہ اکثریتی علاقوں سے تھا۔ سب سے زیادہ شہداء صوبہ ذی قار سے تعلق رکھتے تھے (383 افراد)، اس کے بعد بابل (382)، بغداد (292)، دیوانیہ (252)، کربلا (132)، دیالہ (119)، مثنیٰ (86)، واسط (80)، صلاح الدین (26)، کرکوک (17)، میسان (16)، بصرہ (10)، اربیل (7) اور الانبار (2) شامل ہیں۔

یاد رہے کہ داعش نے جون 2014 میں ایئر بیس کے ان طلباء کو گرفتار کرنے کے بعد اجتماعی طور پر قتل کر دیا تھا، ان میں سے بعض کو زندہ دفن بھی کیا گیا۔ اس وحشیانہ عمل کے کچھ مناظر ویڈیوز کی صورت میں سامنے بھی آئے جنہوں نے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر عوامی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سانحہ اسپایکر کی یاد صرف جذباتی انداز تک محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ اسے تاریخی، تعلیمی اور قانونی شکل دی جانی چاہیے تاکہ ایسے مظالم دوبارہ نہ دہرائے جا سکیں، شہداء کی عزت و حرمت محفوظ رہے، ان کے خاندانوں کو انصاف ملے، اور انتہاپسندی و دہشت گـ،ـردی کے خلاف عدل و انصاف کا بول بالا ہو۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button