بڑھتی ہوئی اسلاموفوبیا ہزاروں مسلمانوں کو فرانس چھوڑنے پر مجبور کر رہا ہے
جیکوبین میگزین: بڑھتی ہوئی اسلاموفوبیا ہزاروں مسلمانوں کو فرانس چھوڑنے پر مجبور کر رہا ہے
امریکی جریدے "جیکوبین” نے اپنی تازہ رپورٹ میں فرانس میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حالیہ برسوں میں ہزاروں مسلمان، خصوصاً اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشہ ور افراد، فرانس کو چھوڑ کر زیادہ روادار اور مذہبی و ثقافتی آزادی دینے والے ممالک کی جانب ہجرت کر رہے ہیں۔
یہ رپورٹ حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب "فرانس سے محبت، لیکن تم اُسے چھوڑ رہے ہو”سے اخذ کی گئی ہے، جسے اولیویئر اِستیف، ایلس پیکار، اور جولیان تالبان نے تحریر کیا ہے۔ کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تقریباً دو لاکھ فرانسیسی مسلمان، جن میں اکثریت پیشہ ور ماہرین اور تعلیم یافتہ افراد کی ہے، برطانیہ، کینیڈا جیسے ممالک کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ فرانس میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتا ہوا تعصب اور ان کے ساتھ روا رکھا جانے والا منظم امتیاز ہے۔
کتاب کے مطابق یہ ہجرت محض انفرادی واقعات کا نتیجہ نہیں بلکہ فرانس میں رہنے والے مسلمانوں کے اس بڑھتے ہوئے احساس کا مظہر ہے کہ وہ روزمرہ زندگی میں مستقل طور پر نشانے پر ہیں۔ ان کے مطابق خاموش دشمنی، طعن و تشنیع، اور مسلسل ہراسانی ان کے تجربے کا مستقل حصہ بن چکے ہیں۔
فرانسیسی وزارت داخلہ کے مطابق سال 2025 کی پہلی سہ ماہی میں مسلمانوں کے خلاف 79 نفرت انگیز جرائم رپورٹ ہوئے، جو کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ ہیں۔ ان میں ایک دلخراش واقعہ وہ بھی شامل ہے جس میں جنوبی فرانس میں ایک مالی نژاد مسلمان کو مسجد کے اندر چاقو مار کر قتل کر دیا گیا۔ اسی طرح اورلیان شہر میں ایسے پوسٹرز چسپاں کیے گئے جن پر لکھا تھا: "یہ علاقہ مسلمانوں کے لیے ممنوع ہے”، جو کہ بڑھتے ہوئے تعصب کی کھلی علامت ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ان حملوں کے پیچھے اکثر ایسے افراد ہوتے ہیں جو انتہا پسند نظریات رکھتے ہیں، مثلاً نیو نازی گروہ، جو مسلمانوں کے لیے فرانس کا ماحول خطرناک بنا رہے ہیں۔
جیکوبین میگزین کے مطابق فرانس میں میڈیا اور سیاستدانوں کا کردار بھی اسلاموفوبیا کے پھیلاؤ میں معاون ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ حجاب جیسے مذہبی معمولات کو قومی شناخت کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے اسلاموفوبیا کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کو بند کرنا اور ایسی پالیسیاں اپنانا جنہیں "علیحدگی پسندی” کے خلاف کہا جاتا ہے، درحقیقت مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے مترادف ہے۔
رپورٹ میں حالیہ سروے کے نتائج بھی شامل ہیں، جن کے مطابق تقریباً تین چوتھائی مسلمانوں نے فرانس امتیازی سلوک کی وجہ سے چھوڑا۔ اسی طرح 64 فیصد نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنے مذہبی فرائض آزادی سے ادا کرنا چاہتے ہیں، جو کہ فرانس میں ممکن نہیں رہا۔
یہ رپورٹ ایک بڑی یورپی ریاست کے اندر بڑھتے ہوئے بحران کی عکاسی کرتی ہے، جہاں مذہب یا ثقافت کی بنیاد پر شہریوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ اس تناظر میں پالیسیوں اور حکومتی رویوں پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔