اعتراضات اور مخالفتوں کے بعد… پاکستان میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کرنے کا قانون منظور
اعتراضات اور مخالفتوں کے بعد… پاکستان میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کرنے کا قانون منظور
پاکستان میں ایک نئے قانون کی منظوری نے معاشرتی اور مذہبی حلقوں میں شدید اختلاف رائے پیدا کر دیا ہے۔ اس قانون کے تحت 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کو جرم قرار دیا گیا ہے، اور اس میں والدین، گواہوں اور نکاح خواں سمیت شادی میں شریک تمام افراد کے لیے سخت سزائیں رکھی گئی ہیں، جن میں سات سال تک قید اور بھاری جرمانے شامل ہیں۔ جرمانے کی رقم عدالت طے کرے گی۔
یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان میں 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی عام ہے، جسے قانون کے حامی ایک سنگین معاشرتی مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔
دوسری طرف، دینی جماعتوں اور علمائے کرام، خاص طور پر "جمعیت علماء اسلام” نے اس قانون کی شدید مخالفت کی ہے۔ ان کے مطابق یہ قانون اسلامی شریعت کے خلاف ہے، جو پاکستان کا آئینی و نظریاتی بنیاد ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس قانون کو واپس لیا جائے، اور اس کے خلاف احتجاج اور ریلیوں کا اعلان بھی کیا ہے۔
ایک تیسری رائے بھی سامنے آئی ہے، جو اس قانون کو "ایک رسمی کاغذی قدم” قرار دیتی ہے، جس کا عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس نقطۂ نظر کے حامل افراد کا کہنا ہے کہ جب تک معاشرتی رویوں، رسم و رواج اور ثقافتی اقدار میں تبدیلی نہیں آئے گی، تب تک ایسے قوانین موثر ثابت نہیں ہوں گے۔ ایک قبائلی رہنما خادم اللہ خان سردار نے کہا کہ قانون تب ہی کارگر ہوگا جب اس کے ساتھ معاشرتی آگاہی اور اصلاحی کوششیں بھی کی جائیں۔
جبکہ پاکستانی معاشرے میں اس موضوع پر بحث و مباحثہ جاری ہے، بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس قانون کی کامیابی حکومت، مذہبی قیادت اور سول سوسائٹی کے باہمی تعاون سے ممکن ہو سکے گی، تاکہ لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے عوامی شعور میں حقیقی تبدیلی لائی جا سکے۔