نماز جیسے واجب اعمال صرف مقررہ شرعی وقت میں واجب ہوتے ہیں، اس کے علاوہ وقت میں انجام دینے کے لیے خاص دلیل ضروری ہے: آیت الله العظمی شیرازی
نماز جیسے واجب اعمال صرف مقررہ شرعی وقت میں واجب ہوتے ہیں، اس کے علاوہ وقت میں انجام دینے کے لیے خاص دلیل ضروری ہے: آیت الله العظمی شیرازی
آیت اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی کا روزانہ علمی درس بارہ ذوالحجہ 1446 کو منعقد ہوا۔ اس نشست میں بھی، گزشتہ دروس کی طرح، آپ نے شرکاء کے مختلف فقہی سوالات کے جوابات دیے۔
آیت اللہ شیرازی نے سورہ اسراء کی آیت 78 کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا:
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت نے نماز جیسے واجب عمل کے لیے ایک مقررہ وقت متعین کیا ہے، اور جب کوئی عمل خاص وقت میں واجب قرار دیا جائے، تو اس وقت کے علاوہ انجام دینا صحیح نہیں ہوتا۔
آپ نے فرمایا: اگر کوئی شخص نماز کو اس کے مقررہ وقت میں ادا نہ کر سکے، تو بعد میں اسے دوبارہ ادا کرنے کے لیے شریعت سے خاص دلیل درکار ہوتی ہے۔ اور ایسی دلیل موجود ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بعض عبادات جیسے نماز کو اگر مقررہ وقت پر نہ پڑھا جائے اور وقت گزر جائے، تو انسان پر اس کی قضا لازم ہوتی ہے۔
آپ نے نماز کی قضا اور اس کے وقت کے متعلق فقہی اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: فقہا کے درمیان قضا کی صورت میں وقت کا تعین مختلف ہے، جیسا کہ "عروۃ الوثقیٰ” جیسی فقہی کتب میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ مثلاً سفر میں چھوٹ جانے والی نماز کی قضا کے بارے میں اختلاف ہے۔ مشہور رائے یہ ہے کہ قضا ایک نیا حکم ہے، لیکن قضا کا طریقہ کیا ہو، اس پر بھی اختلاف ہے۔
آپ سے یہ سوال ہوا کہ:
اگر کوئی شخص نماز کے شروع وقت میں شہر میں تھا لیکن نماز نہ پڑھی، یا آخر وقت میں سفر میں تھا اور نماز رہ گئی، تو وہ قضا پوری کرے گا یا قصر؟
تو آپ نے فرمایا:
مشہور فقہی رائے، بعض روایات کی بنیاد پر، یہ ہے کہ قضا آخری وقت کے مطابق کی جائے گی۔
لہٰذا اگر آخری وقت میں شہر میں تھا، تو نماز پوری (تمام)قضا کرے گا
اگر آخری وقت میں سفر میں تھا، تو نماز قصر قضا کرے گا
کچھ فقہا نے احتیاطاً دونوں طریقے جمع کرنے کا کہا، لیکن مشہور قول یہی ہے کہ قضا آخری وقت کے مطابق ہو گی۔
آپ نے ان جگہوں کی نمازوں کے بارے میں بھی فرمایا جہاں انسان قصر اور تمام کے درمیان اختیار رکھتا ہے، جیسے مکہ، مدینہ، کوفہ اور کربلا۔
اگر وہاں نماز قضا ہو جائے تو قصر پڑھنا بہتر ہے کیونکہ خاص روایت موجود نہیں ہے، اور اصول یہی ہے کہ جو نماز سفر میں یا حضر میں قضا ہوئی ہو، وہ اسی حالت کے مطابق قضا کی جائے۔
آپ نے فرمایا:
اگر کربلا جیسے مقامات میں نماز قضا ہوئی ہو، اور انسان وہیں موجود ہو، تو قضا میں بھی قصر یا تمام کا اختیار ہے۔
کتاب "عروۃ الوثقیٰ” میں احتیاطاً قصر پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، اور اکثر فقہا نے اسی پر فتویٰ دیا ہے، البتہ کچھ فقہا نے مکمل نماز کا بھی کہا ہے۔
اصولی طور پر چونکہ سفر میں قضا کی گئی نماز، اگر شہر میں پڑھی جائے تو بھی قصر ہی ہوتی ہے، اس لیے ان چار مخصوص جگہوں کے علاوہ کہیں اور قضا کی جائے تو قصر ہوگی۔