خبریں

برطانوی عدالت نے قرآن مجید کو نذر آتش کرنے والے شخص کو مجرم قرار دے دیا

برطانوی عدالت نے قرآن مجید کو نذر آتش کرنے والے شخص کو مجرم قرار دے دیا

ایک واقعے میں جس نے آزادی اظہار رائے اور نفرت انگیز تقاریر کی حدود پر وسیع بحث چھیڑ دی، برطانیہ کی ایک عدالت نے شہری حمید جوشکون کو قرآن کریم کی ایک نسخے کو لندن میں ترک قونصل خانے کے سامنے نذر آتش کرنے کے جرم میں مجرم قرار دے دیا۔ جوشکون نے اس موقع پر اسلام کے خلاف توہین آمیز نعرے بھی لگائے، جسے برطانوی عدلیہ نے مذہبی نفرت کو بھڑکانے کی واضح کوشش قرار دیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جوشکون، جو اپنے انتہا پسندانہ نظریات اور مسلمانوں سے کھلی دشمنی کے لیے جانا جاتا ہے، نے ایک انتہائی اشتعال انگیز عمل انجام دیا۔ اس کا مقصد محض رائے کا اظہار نہیں بلکہ دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے عقیدے کو جان بوجھ کر اور عوامی طور پر نقصان پہنچانا تھا۔

کیس کے جج نے نشاندہی کی کہ واقعے کے لیے جس مقام کا انتخاب کیا گیا—یعنی ایک مسلم اکثریتی ملک کے سفارتی مشن کے سامنے—اور جو زبان استعمال کی گئی، وہ سب ظاہر کرتا ہے کہ اس عمل کے پیچھے پہلے سے طے شدہ نیت تھی: صرف علامتی احتجاج نہیں، بلکہ مذہبی نفرت کو ہوا دینا۔ جج نے جوشکون کے طرز عمل کو "برطانوی معاشرے میں شہری اقدار اور کثرت پسندی پر کھلا حملہ” قرار دیا۔

جبکہ دفاعی وکلا نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کا اقدام آزادی اظہار کے دائرے میں آتا ہے، تجزیہ کاروں نے اس دلیل کو قوانین سے بچنے کی ایک چال قرار دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ آزادی اظہار کی حدود ہیں، اور ان میں مذہب کی توہین یا نفرت انگیزی شامل نہیں۔

یہ عدالتی فیصلہ برطانیہ اور بیرونِ ملک اسلامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سراہا گیا، جنہوں نے اسے اسلاموفوبیا کے بڑھتے رجحانات کے خلاف ایک واضح پیغام اور معاشرتی ہم آہنگی و باہمی احترام کے تحفظ کے لیے ایک ضروری عدالتی اقدام قرار دیا۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button