افغانستان میں اعلیٰ تعلیم کا بحران؛ طالبان کی پابندیوں اور حکمرانی کے تحت یونیورسٹیز
افغانستان میں اعلیٰ تعلیم کا بحران؛ طالبان کی پابندیوں اور حکمرانی کے تحت یونیورسٹیز
طالبان کی اقتدار میں واپسی کے 4 سال بعد، افغان یونیورسٹیز علم اور تحقیق کے مراکز بننے کے بجائے سخت پابندیوں، خواتین کے اخراج اور نظریاتی مواد کے حامل ادارے بن گئی ہیں۔
ایک ایسا رجحان جس سے اس ملک میں ترقی اور تعلیمی انصاف کے مستقبل کو خطرہ ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
اگست 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد، افغانستان کے اعلی تعلیمی نظام کو بنیادی اور چیلنجنگ تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق وہ یونیورسٹیز جو گزشتہ دو دہائیوں میں عالمی امداد سے ترقی کی راہ پر گامزن تھیں اب نظریاتی دباؤ، وسیع پیمانے پر پابندیوں اور خواتین کی موجودگی کے بتدریج خاتمے کی وجہ سے اپنی تعلیمی حیثیت کھو رہی ہیں۔
طالبان کی جانب سے نافذ کردہ سب سے واضح تبدیلیوں میں سے ایک یونیورسٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔
دسمبر 2022 میں طالبان کی وزارت اعلیٰ تعلیم نے اعلان کیا کہ خواتین کی تعلیم کو اگلے نوٹس تک معطل رکھا جائے گا۔
مقامی ذرائع کے مطابق صوبہ بلخ میں صرف ایک طبی ادارے میں 700 سے زائد لڑکیاں تعلیم سے محروم ہو گئیں۔ نیز یونیورسٹی کے تعلیمی بورڈز میں خواتین کی موجودگی کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ طالبان نے یونیورسٹیز کے تعلیمی مواد کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔
سماجی علوم و فنون اور فلسفہ جیسے مضامین کو ختم کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ شرعی مضامین نے لے لی ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق اپریل 2025 میں قندھار میں ہونے والے اجلاس میں 2600 مذہبی اسکالرز نے طالبان رہنما سے وفاداری کا عہد کیا۔ ایک ایسا عمل جو مبصرین کے مطابق یونیورسٹیز کے انتہا پسندانہ سوچ کو فروغ دینے کے مراکز میں تبدیل ہونے کی علامت ہے۔
برین ڈرین نے بھی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ صرف کابل یونیورسٹی کے 600 سے زائد پروفیسرز ملک چھوڑ چکے ہیں۔ ان پروفیسرز کی جگہ پر مہارت نہ رکھنے والے مقرر ہوئے ہیں۔
طالبان کی پالیسیوں کے ساتھ صنفی علیحدگی، کمزور انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی کے دباؤ نے افغانستان میں اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کو انتہائی تاریک اور تشویش ناک بنا دیا ہے۔