اسلامی دنیاتاریخ اسلام

یکم ذی الحجہ ؛ یوم عقد حضرت فاطمہ زہرا و امیرالمومنین امام علی علیہما السلام

پہلی ذی الحجہ وہ مبارک دن ہے جس دن خدا اور اس کے رسول کی خشنودی کے ساتھ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اور حضرے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا عقد مبارک ہوا۔
ہجرت کے دوسرے سال امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اور حضرے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا حکم خدا سے عقد ہوا تاکہ کوثر نبوی شجرہ علوی کے ساتھ مل کر کائنات میں ثمرات طیبہ نچھاور کریں۔
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ نے فرمایا: اگر علی (علیہ السلام) نہ ہوتے تو فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا کوئی کفو اور ہمسر نہ ہوتا۔

جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے سنا کہ بعض وہ لوگ جن کے رشتہ کو جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے سلسلے میں قبول نہیں کیا وہ بہت ناراض ہیں تو آپ نے فرمایا: جبرئیل میرے پاس آئے اور کہا : اے محمد! خدا فرماتا ہے: اگرعلي (علیہ السلام) کو پیدا نہ کرتا تو آپ کی بیٹی کے لئے روی زمین پر آدم اور غیر آدم کے درمیان کوئی ہمسر نہ ہوتا ۔
دوسری جانب سے امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی عظمت بھی اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ ان کی ایسی ہمسر ہو جو ایمان، تقویٰ، علم و معرفت، طہارت اور پاکیزگی کے اعتبار سے ان کے مثل ہو۔ تو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے علاوہ کوئی خاتون ان صفات کی حامل نہ تھی۔
آسمان والے بھی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے علاوہ کسی کو حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ کے لئے مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ اس بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کو بھی آسمان میں علی و فاطمہ(علیہما السلام) کا عقد منعقد ہونے کے بعد حکم دیا گیا کہ زمین پر بھی اس رسم کو ادا کیا جائے۔
پس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے علی علیہ السلام سے فرمایا: مسجد میں چلو میں فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا تمہارے ساتھ عقد پڑھتا ہوں اور تمہارے فضائل کو بھی حاضرین محفل کے لئے بیان کرتا ہوں تاکہ تم اور تمہارے چاہنے والے مسرور ہو جائیں۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ مسجد میں تشریف لائے اس حال میں کہ آپ کا چہره خوشی سے درخشاں تھا۔ بلال سے کہا: مہاجرین اور انصار کو بلائو۔
جب سب مسلمان جمع ہو گئے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ منبر پر تشریف لے گئے خدا کی حمد و ثنا بجا لائے۔ اور فرمایا: اے مسلمانو! جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے اور خبر دی کہ خداوند عالم نے بیت المعمور میں تمام ملائکہ کو جمع کر کے علی و فاطمہ (علیہما السلام) کا عقد کروا دیا ہے اور مجھے بھی حکم دیا کہ روے زمین پر میں بھی ان کا عقد پڑھوں۔ اس کے بعد فرمایا: اے علی ! اٹھو، خطبہ پڑھو۔
علی علیہ السلام اٹھے، خطبہ میں خدا کی حمد و ثنا کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی رسالت کی گواہی دی اور اس کے بعد رسمی طور پر جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی خواستگاری کی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے علی علیہ السلام کی درخواست کو جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا تک پہچنچایا۔ اور فرمایا: علی بن ابوطالب ان لوگوں میں سے ہیں جن کی اسلام میں فضیلت اور عظمت ہمارے اوپر واضح ہے۔ میں نے خدا سے دعا کی کہ تمہارا عقد سب سے اچھے آدمی سے کرے اور اب وہ تمہاری خواستگاری کے لئے آئیں ہیں۔ آپ اس سلسلے میں کیا فرماتی ہیں؟ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا خاموش ہو گئیں۔ لیکن اپنا چہرا پیغمبر سے نہیں موڑا اور ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ پیغمبر اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ اپنی جگہ سے اٹھے اور فرمانے لگے”اللہ اکبر، سکوتھا اقرارھا” فاطمہ سلام اللہ علیہا کی خاموشی ان کی رضایت کی دلیل ہے۔ پانچ سو درہم آپ کا مہر طے ہوا۔
اور بہت مختصر سا اثاثہ جہیز کے طور پر آمادہ کیا کہ جن میں سے اکثر چیزیں مٹی کی بنی ہوئی تھیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ آپ کے جہیز پر ہاتھ پھیر کے فرماتے تھے: خدایا: زندگی کو اس خاندان پر جن کی زندگی کے اکثر ظروف مٹی کے ہیں مبارک قرار دے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button