ہندوستانی عدالتیں "آپریشن سندور” کے تحت گرفتاریوں کا سخت جائزہ لینے لگیں، آزادیٔ اظہار اور قانونی عمل پر سنجیدہ سوالات
ہندوستانی عدالتیں "آپریشن سندور” کے تحت گرفتاریوں کا سخت جائزہ لینے لگیں، آزادیٔ اظہار اور قانونی عمل پر سنجیدہ سوالات
ہندوستان کی اعلیٰ عدلیہ نے "آپریشن سندور” سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹس پر ہونے والی گرفتاریوں پر سخت نظرثانی کا آغاز کیا ہے، جس سے آزادیٔ اظہار اور قانونی ضوابط کی خلاف ورزی پر تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ بمبئی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے واضح طور پر اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ریاستی اداروں کی جانب سے اٹھائے گئے بعض اقدامات آئینی اور قانونی دائرہ کار سے تجاوز کر سکتے ہیں۔
بمبئی ہائی کورٹ نے ایک غیر معمولی فیصلے میں 19 سالہ مسلم طالبہ خدیجہ شیخ کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ خدیجہ، جو ایک انجینئرنگ کی طالبہ ہیں، کو انسٹاگرام پر "آپریشن سندور” کے حوالے سے تنقیدی پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا، باوجود اس کے کہ انہوں نے پوسٹ حذف کر دی تھی اور معذرت بھی کر لی تھی۔ عدالت نے ان کی گرفتاری کو "حیران کن” قرار دیتے ہوئے نہ صرف مہاراشٹرا حکومت بلکہ ان کے تعلیمی ادارے کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ طالبہ کے ساتھ ایسے سلوک کیا گیا گویا وہ کوئی سنگین مجرم ہوں، جو تعلیمی اداروں کے کردار کے منافی ہے۔
عدالت نے فوری طور پر ان کی معطلی کو معطل کر دیا اور متعلقہ کالج کو ہدایت دی کہ خدیجہ کو امتحانات میں شرکت کے لیے ہال ٹکٹ جاری کیا جائے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ تعلیمی اداروں کا مقصد طلبہ کی رہنمائی اور تربیت ہے، نہ کہ ان کو سزا دینا۔ ریاست کی جانب سے "ملک دشمن” الزامات کو عدالت نے بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
دوسری جانب، ہندوستان کی سپریم کورٹ نے پروفیسر علی خان محمودآباد کو دی گئی عبوری ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے ریاستی اختیارات کے دائرے کو محدود کرنے کا عندیہ دیا۔ پروفیسر محمودآباد، جو اشوکا یونیورسٹی میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں اور ایک ممتاز شیعہ مفکر کے طور پر جانے جاتے ہیں، کو بھی "آپریشن سندور” سے متعلق سوشل میڈیا سرگرمیوں کے باعث گرفتار کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے ہریانہ پولیس کو ہدایت دی ہے کہ وہ موجودہ دو ایف آئی آرز سے باہر اپنی تحقیقات کو توسیع نہ دے، جن میں ملک کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالنے اور مذہبی منافرت پھیلانے جیسے سنگین الزامات شامل ہیں۔ عدالت نے اس کیس میں قومی انسانی حقوق کمیشن کی مداخلت کو بھی نوٹ کیا، جس نے گرفتاری کے دوران ممکنہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نوٹس جاری کیا تھا۔
عدالت نے عبوری ضمانت برقرار رکھتے ہوئے پروفیسر محمودآباد پر عوامی سطح پر کیس پر تبصرے سے اجتناب کی شرط برقرار رکھی، تاہم اس بات کا اعادہ کیا کہ آزادیٔ اظہار ایک بنیادی حق ہے، جسے غیر ضروری طور پر محدود نہیں کیا جا سکتا، البتہ قانونی دائرہ کار کی خلاف ورزی کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی۔
ان مقدمات نے ملک میں آزادیٔ اظہار، تعلیمی آزادی، اور اقلیتوں کے ساتھ ریاستی سلوک کے حوالے سے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ "آپریشن سندور” کے پس منظر میں کی گئی گرفتاریوں کا عدالتی سطح پر اس طرح کا جائزہ لینا آئندہ کے لیے ایک اہم نظیر قائم کر سکتا ہے، جو ہندوستان میں شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔