اسلاموفوبیا زیرِ عدسہ: تعصبات کا انکشاف اور منفی تصویروں کا خاتمہ
باکو میں بین الاقوامی کانفرنس: اسلاموفوبیا کے بڑھتے رجحانات پر تشویش، مسلمانوں کے خلاف منفی تاثر ختم کرنے پر زور
آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ایک اہم بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں دنیا بھر سے ممتاز شخصیات، ماہرین، اور انسانی حقوق کے نمائندے شریک ہوئے۔ کانفرنس کا عنوان تھا: اسلاموفوبیا زیرِ عدسہ: تعصبات کا انکشاف اور منفی تصویروں کا خاتمہ . اس موقع پر مقررین نے دنیا بھر، بالخصوص یورپ میں، مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصبات، امتیازی سلوک اور نفرت انگیز بیانیے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
کانفرنس کی سب سے توجہ طلب بات اُس وقت سامنے آئی جب بیلجیئم کی اسلامی کونسل کی صدر، اسماء اوشان، نے انکشاف کیا کہ بیلجیئم میں سینکڑوں خواتین اساتذہ کو محض حجاب پہننے کی بنیاد پر ملازمتوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم پیشہ ور خواتین کو مذہبی عقائد کی وجہ سے زندگی کے کئی شعبوں میں محدود کیا جا رہا ہے۔ اوشان نے مغربی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں کو محض سیکیورٹی کے نقطۂ نظر سے نہ دیکھیں بلکہ انہیں جمہوری معاشروں کے اہم شراکت داروں کے طور پر تسلیم کریں۔
مراکش سے تعلق رکھنے والی اقوام متحدہ کی نمائندہ اور بین الاقوامی قانون کی ماہر، پروفیسر بہجہ جمال، نے یورپی میڈیا پر شدید تنقید کی اور کہا کہ مسلمان خواتین کو میڈیا میں مسخ شدہ اور مبالغہ آمیز انداز میں پیش کیا جاتا ہے، جس سے اسلاموفوبیا مزید گہرا ہوتا ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ میڈیا میں مسلمان خواتین کی مؤثر نمائندگی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اسی تناظر میں، مراکش کے انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ، جواد کردودی، نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام کے بارے میں درست اور متوازن معلومات پر مبنی تعلیمی پروگرام متعارف کروائے جائیں، اور خواتین کو دینی اداروں میں فیصلہ سازی اور قیادت کے مواقع دیے جائیں۔
فرانسیسی صحافی ژاں مشیل برون نے فرانس کی پالیسیوں میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے دوہرے معیار کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی میڈیا مسلمانوں کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کی روش اختیار کیے ہوئے ہے، جو نہ صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ کرتی ہے بلکہ ریاستی سطح پر امتیازی رویے کو تقویت دیتی ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ یورپ میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے رجحان کو روکنے کے لیے ٹھوس، جامع اور انسانی حقوق پر مبنی پالیسیوں کی فوری ضرورت ہے، تاکہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ ملے۔