شیعہ مرجعیت

29 ذی القعدہ؛ یوم شہادت جواد الائمہ امام محمد تقی علیہ السلام

29 ذی القعدہ؛ یوم شہادت جواد الائمہ امام محمد تقی علیہ السلام

امام محمد تقی علیہ السلام ہمارے نویں امام ہیں ۔ آپؑ کے والد ماجد سلطان عرب و عجم ، عالم آل محمد ؑ، امام رؤوف حضرت ابوالحسن امام علی رضا علیہ السلام ہیں اور والدہ ماجدہ حضرت سبیکہ سلام اللہ علیہا ہیں۔

امام محمد تقی علیہ السلام کا نام ‘‘محمد’’، کنیت ‘‘ابوجعفر ثانی’’ اور القاب جواد، ابن الرضا ، تقی، زکی، قانع، رضی، مختار، متوکل، مرتضیٰ اور منتخب ہیں۔

آپؑ 10؍ رجب المرجب سن 195 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔

امام محمد تقی علیہ السلام کی عمر مبارک صرف 8 برس تھی کہ مامون عباسی نے آپؑ کے والد ماجد امام علی رضا علیہ السلام کو زہر دغا سے شہید کر دیا اور اس کمسنی میں امامت کی ذمہ داریاں آپ ؑ پر آئیں ۔ چوں کہ امام محمد تقی علیہ السلام سے قبل کوئی امام اتنی کمسنی میں منصب امامت پر فائز نہیں ہوا تھا اس لئے عوام تو عوام بعض خواص کے لئے بھی یہ مسئلہ پیچیدہ ہو گیا تھا۔جیسا کہ روایت میں ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد بغداد میں ‘‘ریان بن صلت’’، ‘‘صفوان بن یحییٰ’’، ‘‘محمدبن حکیم’’، ‘‘عبدالرحمٰن بن حجاج’’ اور ‘‘یونس بن عبدالرحمٰن ’’ بعض دوسرے شیعہ بزرگان کے ساتھ عبد الرحمٰن بن حجاج کے گھر میں جمع ہوئے اور امام علی رضا علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت پر گریہ و زاری اور عزاداری میں مصروف ہوگئے ۔ تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ ‘‘یونس بن عبدالرحمٰن ’’ نے لوگوں سے کہا کہ یہ گریہ و زاری ختم کرو ، پہلے اس اہم مسئلہ کے لئے فکر کرو کہ اب امام کون ہے؟ کیا ہم اس کمسن بچے کو امام مان لیں یا ان کے بڑے ہونے کا انتظار کریں، پھر اس مدت میں کس سے ہدایت حاصل کریں ۔ یہ سننا تھا کہ ‘‘ریان بن صلت’’ اٹھے اور ‘‘یونس’’ کے گلے کو پکڑ لیا اور انکے سر و صورت پر مارتے ہوئے بولے۔ ‘‘تم ہمارے سامنے ابھی تک ایمان کا اظہار کرتے رہے جب کہ شک اور شرک تمہارے اندر چھپا ہوا تھا۔ کیوں کہ اگر کسی کی امامت اللہ کی جانب سے ہو تو اگرچہ وہ ایک دن کا بچہ ہی کیوں نہ وہ سو سال کے بزرگ جیسا ہے لیکن اگر اللہ کی جانب سے امامت نہیں ملی ہے تو سو سال کا ہی کیوں نہ ہو وہ امام نہیں ہو سکتا۔’’ وہاں موجود دیگر لوگوں نے بھی یونس کی سرزنش کی۔

مامون عباسی نے اپنی پرانی سازش پھر رچی اور جس طرح امام علی رضا علیہ السلام کو اپنے پاس بلایا تھا اسی طرح امام محمد تقی علیہ السلام کو بھی بلا لیا تا کہ امام علی رضا علیہ السلام کے قتل سے اسے جو بدنامی ملی تھی وہ کم ہو جائے، امام ؑ کو اپنی نظروں کے سامنے رکھ سکے ، اپنی بیٹی ام الفضل کہ جو خباثت میں اپنے بات کی کاربن کاپی تھی اس سے امام ؑ کی شادی کرا دی تا کہ اگر ممکن ہوا تو امامؑ کی نسل اس سے چل جائے گی و گرنہ کم از کم بیت امامت کی خبریں ملتی رہیں گی۔ لیکن جیسے اسے امام علی رضا علیہ السلام کو ولی عہد بنا کر ناکامی ملی اور انکو شہید کرا کر بدنامی ملی ویسے ہی امام محمد تقی علیہ السلام کو بھی داماد بنا کر دو جہاں کی ناکامی ہی اس کو نصیب ہوئی اور ابدی لعنت اور عذاب اس کا اور اسکی بیٹی کا مقدر بنا۔

اگرچہ ام الفضل نے کئی بار اپنے باپ مامون سے اپنے شوہر امام محمد تقی علیہ السلام کی شکائت کی لیکن اس نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی لیکن مامون کے بعد جب اس کا بھائی معتصم تخت حکومت پر بیٹھا تو اس سے بھی شکائت کرنی شروع کر دی۔ انہیں ایام میں ایک چور کی سزا کے سلسلہ میں درباری قاضی یحییٰ بن اکثم نے قرآن کے مخالف فیصلہ کیا جس پر امام ؑ نے قرآنی آیت کو پیش کر کے اس کے فیصلہ کو غلط ثابت کر دیا ، جس سے اسے اپنی جہالت پر شرمندہ ہونا پڑا تو اس گناہ گار نے اپنے دل میں کینہ پال لیا اور آپ ؑ کے قتل کا درپئے ہو گیا لہذا اس نے بھی معتصم سے آپؑ کی جھوٹی شکائتیں کرنی شروع کردی ۔ آخر معتصم عباسی کے حکم پر ام الفضل نے آپ کو زہر دیا اور آپؑ ماہ ذی القعدہ کے آخری دن سن 220 ہجری کو شہید ہو گئے۔ شہادت کے بعد آپ ؑ کو آپؑ کے دادا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کےپہلو میں دفن کیا گیا۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button