سعودی عرب میں شراب پر پابندی ختم: سیاحت کا فروغ یا اسلامی اقدار سے انحراف؟
سعودی عرب میں شراب پر پابندی ختم: سیاحت کا فروغ یا اسلامی اقدار سے انحراف؟
سعودی عرب نے 73 سال بعد شراب پر عائد پابندی اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس قدم کو سیاحت کے فروغ، عالمی سرمایہ کاری کے حصول اور 2030 ایکسپو و 2034 فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے تناظر میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ البتہ یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حج کا مقدس سیزن قریب ہے، جو لاکھوں مسلمانوں کے لیے روحانی پاکیزگی اور تقویٰ کا مظہر ہوتا ہے۔
اسلامی شریعت میں شراب نوشی کو صریحاً حرام قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں شراب کو "شیطانی عمل” کہا گیا ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی متعدد احادیث میں اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ یہی اصول سعودی عرب کے خود ساختہ "وہابی اسلام” کا بنیادی نکتہ رہا ہے، جو دہائیوں سے شرعی سختی اور ظاہری دینداری کا علَم بلند کیے ہوئے ہے۔ مگر اب وہی حکومت شراب کے محدود فروخت کی اجازت دے کر ایک تضاد، بلکہ منافقت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
یہ اجازت فی الحال کچھ مخصوص مقامات جیسے نیوم سٹی، سندلاح جزیرہ اور ریڈ سی پروجیکٹ کے لگژری ہوٹلوں اور ریزورٹس تک محدود ہوگی۔ شراب کی کھلی فروخت یا گھروں و عوامی مقامات پر استعمال کی اجازت نہیں ہوگی، اور حکومت اصولوں کی خلاف ورزی پر سخت جرمانے عائد کرے گی۔
یہ نیا فیصلہ سعودی حکومت کے وژن 2030 کا حصہ ہے، جس کا مقصد معیشت کو تیل پر انحصار سے نکال کر سیاحت، تفریح اور بیرونی سرمایہ کاری کی طرف موڑنا ہے۔ تاہم، حج جیسے مقدس فریضے کی میزبانی کے ساتھ ساتھ شراب جیسی حرام چیز کی اجازت دینا، مسلم دنیا میں شدید سوالات اور تشویش کو جنم دے رہا ہے۔ کیا یہ دوغلا پن نہیں؟ اسلامی شعائر کے دعوے اور مغربی سرمایہ کی حرص؟ یہ سوال آج پوری مسلم دنیا کے سامنے ہے۔