: 23 ذی القعدہ: یوم شہادت امام علی رضا علیہ السلام

و قبر بطوس یالها من مصیبه
روایت ہے کہ طوس میں ایک دن امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے اپنے خادم اباصلت سے فرمایا: کل میں اس بدکردار (خلیفہ مأمون عباسی) کے پاس جاؤں گا، اگر میں سر برہنہ آؤں تو مجھ سے بات کرنا، میں تمہاری بات کا جواب دوں گا، اور اگر سر ڈھانک کر آؤں تو مجھ سے بات نہ کرنا۔
اباصلت کا بیان ہے: اگلا دن آیا، جب امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے باہر جانے کا لباس زیب تن کیا اور محراب عبادت میں تشریف فرما ہوگئے۔ آپ منتظر تھے کہ اچانک مأمون عباسی کا غلام آیا اور کہنے لگا کہ خلیفہ نے آپ کو بلایا ہے، ابھی تشریف لے چلئے۔ امام علیہ السلام نے عبا دوش پر ڈالی، نعلین پہنے اور مأمون عباسی کے محل کی طرف روانہ ہوئے۔ میں بھی آپ کے پیچھے روانہ ہوا۔ جب امام علیہ السلام مأمون عباسی کے پاس پہنچے، تو میں نے دیکھا کہ اس کے سامنے انگور اور دیگر پھل رکھے ہوئے تھے۔ مأمون عباسی کے ہاتھ میں ایک خوشہ انگور تھا جس میں سے کچھ وہ کھا چکا تھا اور کچھ باقی تھا۔
جب مأمون عباسی نے امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کو دیکھا تو تعظیم میں کھڑا ہوا، اور بہت عزت و احترام سے آپ کو گلے لگایا، آپ کی پیشانی چومی اور اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ پھر وہی انگور کا خوشہ جو اس کے ہاتھ میں تھا، امام علیہ السلام کی طرف بڑھایا اور کہا:
"فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ ! اس سے بہتر انگور آج تک میں نے نہیں کھائے، براہِ کرم اس کو تناول فرمائیے۔”
امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے فرمایا: "جنت کے انگور اس سے بہتر ہیں۔”
مأمون عباسی نے کہا: "آپ کو اس کو کھانا ہی ہوگا، ہوسکتا ہے کہ آپ نہ کھائیں اور مجھ پر الزام لگائیں، حالانکہ میں آپ سے دلی محبت رکھتا ہوں۔”
مأمون عباسی نے اس خوشے کو امام علیہ السلام کے ہاتھ سے لیا اور ان دانوں کو جو زہر آلود نہ تھے، خود کھایا۔ پھر خوشہ دوبارہ امام علیہ السلام کی طرف بڑھایا۔ امام علیہ السلام نے اس میں سے تین دانے کھائے اور تھوڑی دیر بعد واپس جانے کے لئے کھڑے ہوگئے۔
مأمون عباسی نے پوچھا: "کہاں جا رہے ہیں؟”
امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے فرمایا: "اس جگہ کی طرف جہاں تو مجھے بھیج رہا ہے۔”
امام علیہ السلام اپنے سر پر عبا ڈالے ہوئے باہر تشریف لائے۔ میں نے آپ کے فرمان کے مطابق بات نہ کی، یہاں تک کہ آپ اپنے گھر تشریف لے گئے۔ بعض علما کا بیان ہے کہ مأمون عباسی کے محل سے امام علیہ السلام کی قیام گاہ قریب تھی، لیکن زہر اتنا شدید تھا کہ امام علیہ السلام چند قدم چلتے اور زمین پر بیٹھ جاتے، پھر اٹھتے اور کچھ قدم چلتے، پھر زمین پر بیٹھ جاتے اور اسی عالم میں بیت الشرف تک پہنچے۔
جب امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام بیت الشرف پہنچے تو فرمایا: "دروازہ بند کر دو۔” چنانچہ دروازہ بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد آپ بستر پر لیٹ گئے اور میں صحن میں غمزدہ و افسردہ بیٹھا تھا۔ اسی وقت میں نے ایک خوبصورت نوجوان کو دیکھا جس کے بال گھونگھریلے تھے اور وہ امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام سے بہت مشابہ تھا۔ میں ان کی طرف بڑھا اور پوچھا: "دروازہ بند ہے، آپ کہاں جا رہے ہیں؟”
انہوں نے فرمایا: "جس خداوند متعال نے مجھے مدینہ منورہ سے یہاں پہنچایا، وہ مجھے دروازہ بند ہونے کے باوجود حجرہ میں پہنچا دے گا۔”
میں نے پوچھا: "آپ کون ہیں؟”
فرمایا: "اے اباصلت! میں تم پر خدا کی حجت ہوں۔ میں محمد بن علی ہوں۔”
یہ امام محمد تقی علیہ السلام تھے۔ پھر وہ اپنے والد گرامی کے پاس حجرے میں داخل ہوئے اور مجھ سے فرمایا: "تم بھی آ جاؤ۔”
جب امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے اپنے فرزند کو دیکھا، تو اپنے سینے سے لگا لیا، ان کی پیشانی کو چوما اور اپنے پہلو میں جگہ دی۔ امام محمد تقی علیہ السلام (جن کی عمر اس وقت سات یا آٹھ برس تھی) اپنے والد پر جھک گئے اور بوسے دینے لگے۔ اسی دوران امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے اپنے فرزند کو اسرار امامت تفویض فرمائے اور کچھ خاص باتیں بتائیں جو میں نہ سمجھ سکا۔ اور اسی عالم میں امام علیہ السلام نے دنیا سے رخصت فرمایا۔
اباصلت بیان کرتے ہیں: امام محمد تقی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: "اٹھو اور حجرے سے پانی اور تخت لے آؤ۔”
میں نے عرض کی: "وہاں پانی اور تخت نہیں ہیں۔”
فرمایا: "میں جو کہہ رہا ہوں، وہ کرو۔”
جب میں حجرے میں گیا تو واقعی وہاں پانی اور تخت موجود تھے، انہیں لے کر امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: "تم یہاں سے چلے جاؤ، کچھ فرشتے میرے ساتھ غسل میں مدد کریں گے۔”
امام محمد تقی علیہ السلام نے غسل دیا، پھر مجھ سے فرمایا: "جاؤ اور کفن و حنوط لے آؤ۔” میں وہاں گیا تو واقعی ایک کپڑے میں کفن اور حنوط موجود تھا۔ وہ لا کر آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے حنوط کیا اور کفن پہنایا۔ پھر خود نمازِ جنازہ ادا کی اور فرمایا: "تابوت لے آؤ۔”میں نے عرض کی: "باہر سے لانا پڑے گا۔”
فرمایا: "اسی حجرے سے لے آؤ۔”
جب میں گیا تو واقعی وہاں تابوت رکھا ہوا تھا، حالانکہ پہلے کبھی وہاں تابوت نہ دیکھا تھا۔ امام محمد تقی علیہ السلام نے اپنے والد گرامی کا جسدِ مبارک اس تابوت میں رکھا۔
اسی وقت مأمون عباسی اپنے غلاموں کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ وہ لوگ ظاہری طور پر رورہے تھے اور اظہارِ افسوس کر رہے تھے۔ مأمون عباسی نے عام سوگ کا اعلان کیا اور امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کو وہیں دفن کیا جہاں اس کے والد ہارون رشید کی قبر تھی، یعنی طوس (مشہد) میں۔ آج وہی جگہ روضۂ مبارک کے طور پر مشہور و معروف ہے۔
جب محلہ نوقان کی مؤمن خواتین کو یہ خبر ملی کہ فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی حالتِ غربت میں شہادت ہو گئی ہے، تو وہ ہاتھوں میں پھول لے کر زیارت اور اظہار تعزیت کے لیے حاضر ہوئیں، قبرِ مبارک پر پھول چڑھائے اور ماتم و عزاداری کی۔