
اتر پردیش کی الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں دوبارہ تصدیق کی کہ مسلم پرسنل لاء کے تحت ایک مسلمان مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ اپنی تمام بیویوں کے ساتھ یکساں اور برابری کا سلوک کرے۔ عدالت نے فرقان نامی شخص کی ایک درخواست پر سماعت کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا ہے جو اپنی پہلی شادی کو چھپا کر دوسری خاتون سے شادی کرنے اور رشتے کے دوران اس کی عصمت دری کے الزامات کے تحت فوجداری مقدمہ کا سامنا کررہا ہے۔
فرقان کو مراد آباد کی ایک عدالت نے 2020ء میں ایک خاتون کے ذریعے دائر کی گئی شکایت کی بنیاد پر طلب کیا تھا جس میں فرقان پر الزام لگایا تھا کہ اس نے اپنی پہلی شادی کو ظاہر کئے بغیر خاتون سے شادی کی اور رشتے کے دوران اس کی عصمت دری کی۔ اس معاملے میں ایک چارج شیٹ دائر کی گئی اور فرقان سمیت دیگر 2 افراد کے خلاف سمن جاری کئے گئے۔ تاہم، فرقان نے ان کارروائیوں کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور دعویٰ کیا کہ مسلم قانون کے تحت اسے چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ میں اس کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس ارون کمار سنگھ دیشوال نے کہا کہ ہندوستانی تعزیرات ہند کی دفعہ 494، دو شادیوں کو جرم قرار دیتی ہے لیکن اگر پہلی شادی جائز ہو اور بعد کی شادیاں پرسنل لاء کے تحت جائز ہو تو یہاں دفعہ 494 لاگو نہیں ہوتی۔ جج نے کہا، "اسلام میں تعدد ازدواج کی اجازت ہوس یا خواہش کی تکمیل کیلئے نہیں، بلکہ مخصوص تاریخی اور اخلاقی حالات میں دی گئی ہے۔”
18 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں، عدالت نے تعدد ازدواج کے قرآنی تناظر پر غور کیا۔ جسٹس دیشوال نے نوٹ کیا کہ قرآن میں تعدد ازدواج کا ذکر صرف ایک بار آیا ہے اور یہ اس وقت جائز تھا جب ابتدائی لڑائیوں میں بہت سے مسلم مرد ہلاک ہوئے اور بیوائیں اور یتیم بچ گئے۔ جج نے واضح کیا، "یہ شق بیواؤں اور بچوں کو استحصال سے بچانے کیلئے تھی، ذاتی مفادات کو پورا کرنے کیلئے نہیں۔”
عدالت نے فیصلہ دیا کہ فرقان کی دوسری شادی جائز تھی کیونکہ دونوں خواتین مسلم تھیں۔ عدالت نے مزید کہا کہ عصمت دری کا الزام برقرار نہیں رہتا کیونکہ یہ رشتہ ازدواجی ڈھانچے کے اندر تھا۔ دفعہ 494 (جو دو شادیوں کو جرم قرار دیتی ہے) کے تحت جرم صرف اس صورت میں ہوتا اگر پہلی شادی کو کالعدم قرار دیا گیا ہوتا جو اس کیس میں نہیں تھا۔
عدالت نے فرقان کے خلاف چارج شیٹ، نوٹس اور سمن کو منسوخ کر دیا اور فیصلہ دیا کہ اس کے خلاف نہ تو دو شادیوں کا جرم بنتا ہے اور نہ ہی عصمت دری کا۔ اس معاملے کی اگلی سماعت 26 مئی کو طے کی گئی ہے۔