اسلامی دنیاتاریخ اسلامشیعہ مرجعیتمقالات و مضامین

بانی حوزہ علمیہ قم، عظیم مرجع تقلید، آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری یزدی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات اور دینی خدمات – ایک تاریخی جائزہ

17 ذوالقعدہ وہ تاریخ ہے جب علم و فقاہت کا درخشاں سورج، تقویٰ و روحانیت کا مجسم نمونہ، اور عشق اہل بیت علیہم السلام کا پیکر، مرجعیت شیعہ کے ستون، آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری یزدی رحمۃ اللہ علیہ نے 1355 ہجری قمری کو اس دار فانی سے رخصت لی۔ ان کی زندگی اور علمی جدوجہد آج بھی پوری شیعہ دنیا کے لیے مشعل راہ ہے۔

سن 83 ہجری قمری میں خاندانِ اشعری نے کوفہ سے ہجرت کرکے قم میں سکونت اختیار کی۔ دوسری صدی ہجری میں جب اس خاندان کے مزید افراد قم آئے تو یہاں شیعوں کی اکثریت قائم ہوگئی۔ اس وقت سے قم شہر اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں اور ان کے علوم کا مرکز بنتا چلا گیا۔ ائمہ طاہرین علیہم السلام کے دورِ حیات میں بھی ان کے نمائندگان کا قیام اسی شہر میں رہا۔ قم میں علمائے اعلام، محدثین، مورخین، فقہاء اور مفسرین کی ایک طویل فہرست پائی جاتی ہے جنہوں نے یہاں سے علم دین کو دنیا بھر میں عام کیا۔

تاہم جب ظالم حکمرانوں نے دینی مراکز کو نشانہ بنایا تو حوزہ علمیہ قم کی فعالیت ختم ہو گئی۔ مدارس ویران اور کتاب خانے سنسان ہو گئے۔ اس ماحول میں قم کے بزرگ علماء، خاص طور پر فقیہ مجاہد آیۃ اللہ محمد تقی بافقی رحمۃ اللہ علیہ نے آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری یزدی رحمۃ اللہ علیہ کو قم آنے کی دعوت دی۔

شیخ حائری رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن مجید سے استخارہ کیا تو سورہ یوسف کی آیت ’’اور اپنے تمام اہل خانہ کو ساتھ لے آنا‘‘ نازل ہوئی۔ چنانچہ وہ اپنے شاگردوں کے ہمراہ قم تشریف لائے۔ ان کی آمد کے ساتھ ہی قم کے علمی افق پر نیا سویرا طلوع ہوا۔ بند مدارس کھلنے لگے، درس و تدریس کا سلسلہ بحال ہوا اور علم دین کی بہار دوبارہ لوٹ آئی۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری یزدی رحمۃ اللہ علیہ سن 1276 ہجری قمری میں ایران کے شہر میبد کے علاقے مہرجرد میں ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے اردکان گئے۔ بعد ازاں اپنی والدہ کے ہمراہ 1298 ہجری میں عراق تشریف لے گئے۔ کربلاء میں فاضل اردکانی رحمۃ اللہ علیہ سے دو برس علم حاصل کیا، پھر مرجع بزرگ آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس سامراء تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے بارہ برس قیام کیا اور فقہ، اصول اور دیگر اسلامی علوم میں مہارت حاصل کی۔ اساتذہ میں آیۃ اللہ فضل اللہ نوری، آیۃ اللہ میرزا ابراہیم محلاتی اور آیۃ اللہ میرزا مہدی شیرازی رحمہم اللہ جیسے جید علما شامل تھے۔

بعد ازاں آپ نجف اشرف چلے گئے اور آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد فشارکی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ محمد کاظم خراسانی المعروف بہ آخوند خراسانی رحمۃ اللہ علیہ سے علم حاصل کیا۔ پھر ایران واپس آکر شہر اراک میں حوزہ علمیہ قائم کیا۔ کچھ عرصہ دوبارہ نجف اشرف اور پھر کربلاء معلیٰ میں تدریس فرمائی۔ اسی نسبت سے آپ کو "حائری” کا لقب دیا گیا۔

آپ نے سن 1232 ہجری شمسی میں دوبارہ ایران آکر اراک میں حوزہ قائم کیا، جو بہت جلد طلباء کا مرکز بن گیا۔ آپ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ جب تک قوم کو علمی اور فکری تربیت نہ دی جائے، کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری یزدی رحمۃ اللہ علیہ کو امام حسین علیہ السلام سے بے پناہ عشق تھا۔ آپ درس فقہ سے قبل مجلس عزا میں شریک ہوتے، خود نوحہ خوانی کرتے اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے بعد ہی نماز کی نیت باندھتے تھے۔ آپ کا قول تھا: "میرے پاس جو کچھ ہے، وہ امام حسین علیہ السلام کی بدولت ہے۔”

آپ منبر کو ایک مقدس فریضہ سمجھتے تھے اور اس بات کے قائل تھے کہ اہل علم ہی منبر پر جائیں۔ آپ فرماتے تھے کہ منبر صرف گریہ اور عزا کا ذریعہ نہیں، بلکہ تربیت انسان کا ایک موثر وسیلہ ہے۔

آپ نے تبلیغ دین کے لیے منظم منصوبہ بندی کی۔ ماہ رمضان، ماہ محرم، ماہ صفر اور دیگر مذہبی مواقع پر مختلف شہروں اور دیہات میں مبلغین روانہ فرماتے، مگر اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ جو خطیب یا ذاکر منبر پر جائے وہ علمی و اخلاقی اعتبار سے اہل ہو۔

آخرکار یہ سورج علم و فقاہت 17 ذوالقعدہ 1355 ہجری قمری کو قم مقدس میں غروب ہو گیا۔ آپ کو حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے جوار میں دفن کیا گیا۔ آج آپ کی قائم کردہ درسگاہ "حوزہ علمیہ قم” دنیا بھر میں دینی، علمی اور تبلیغی خدمات انجام دے رہی ہے اور آپ کی کتابیں تشنگانِ علم کے لیے آبِ حیات کا درجہ رکھتی ہیں۔

إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button