افغانستان میں اظہارِ رائے کی آزادی کو سنگین خطرہ لاحق ہے، صحافیوں کے تحفظ کی تنظیم کا انتباہ

کابل – صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ) نے افغانستان میں حالیہ پیش رفت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ طالبان حکومت کے ترجمانوں کی جانب سے دیے گئے بیانات اظہارِ رائے اور صحافتی آزادی کے لیے "سنگین خطرہ” بن چکے ہیں۔
تنظیم نے ایک باضابطہ بیان میں کہا کہ وہ افغانستان میں طالبان کی وزارت اطلاعات و ثقافت کی جانب سے شہریوں کے سوشل میڈیا استعمال کے حوالے سے شروع کی گئی تفتیشی کارروائیوں پر شدید تحفظات رکھتی ہے، اور ان اقدامات کو میڈیا پر دباؤ ڈالنے اور بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔
بیان میں واضح کیا گیا:
"ایسے اقدامات نہ صرف میڈیا کی آزادی کو محدود کرتے ہیں، بلکہ یہ آزاد صحافت کی خودمختاری اور انسانی حقوق کی پامالی کی علامت ہیں۔”
یاد رہے کہ طالبان حکومت کی وزارتِ تعلقات عامہ نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ
"سوشل میڈیا کے غیر قانونی استعمال پر قانونی کارروائی کی جائے گی”۔
اس بیان نے ملک و بیرونِ ملک صحافتی و انسانی حقوق کی تنظیموں میں شدید تشویش کی لہر دوڑا دی۔
افغان صحافیوں کی مقامی تنظیم نے بھی ان بیانات کو "میڈیا اور اظہارِ رائے کی آزادی کے خلاف براہِ راست خطرہ” قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے فوری اور مؤثر ردعمل کا مطالبہ کیا ہے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے اپنی اپیل میں عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ:
- افغان صحافیوں کو تحفظ فراہم کریں
- میڈیا کی آزادی کے دفاع میں فوری اقدام کریں
- ملک میں جاری موجودہ بحرانی صورتِ حال کے پیش نظر صحافیوں کو قانونی، فنی اور انسانی امداد فراہم کی جائے
تنظیم نے افغانستان میں کام کرنے والے صحافیوں، میڈیا اداروں اور انٹرنیٹ ایکٹیوسٹس کو تلقین کی کہ وہ:
- اپنی ڈیجیٹل سیکیورٹی کو مضبوط بنائیں
- آن لائن کام کرتے ہوئے حفاظتی تدابیر اختیار کریں
- ممکنہ نگرانی یا دھمکیوں کے پیش نظر خفیہ رابطوں اور محفوظ پلیٹ فارمز کا استعمال کریں
تنظیم نے اپنے بیان کا اختتام اس خبردار کرتے ہوئے کیا کہ:
"اگر عالمی برادری نے اس وقت خاموشی اختیار کی تو افغانستان میں آزادیٔ اظہار کا جو تھوڑا بہت دائرہ باقی ہے، وہ بھی مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے۔”