
ڈونالڈ ٹرمپ کی خطہ کے دورے کے دوران أبو محمد الجولاني سے غیر متوقع ملاقات نہ صرف ایک سفارتی اقدام بلکہ یہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ ریاست ہاے متحدہ کی جانب سے علاقائی نظم کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایک ایسا نقطہ نظر جو شام کو تنہائی سے نکال سکتا ہے لیکن ساتھ ہی اسے سیاسی اور سلامتی کے معاہدوں کے خطرناک راستے پر ڈال سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں
شام کے سیاسی منظر نامہ کی ایک متنازع شخصیتأبو محمد الجولاني سے ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ ملاقات واشنگٹن، حتی اسرائیل کے ساتھ دمشق کے تعلقات کو معمول پر لانے کی جانب ایک غیر متوقع قدم ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ ملاقات ریاض اور قطر میں ہوئی اور دمشق کے خلاف اقتصادی پابندیاں ہٹانے کے امریکہ کے اچانک فیصلے کے موافق ہوئی۔
دوحہ جانے والی پرواز پر صحافیوں سے ایک انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے أبو محمد الجولاني کو "مضبوط” اور "قوی ماضی کے ساتھ” قرار دیا اور مشرق و مغرب تجارت میں ایک اہم ربط بننے کے لئے شام کی تیاری کا ذکر کیا۔
أبو محمد الجولاني کے بیانات میں یہ تعبیرات ملک کی تعمیر نو میں اپنے ملک کی تیاری اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے بارے میں شام کی خارجہ پالیسی میں ایک نئے دور کے آغاز کی نشاندہی کرتی ہے۔
تاہم، جو چیز اس پیش رفت پر بہت زیادہ سایہ فگن ہے وہ ان ملاقات میں أبو محمد الجولاني کی موجودگی اور کردار ہے۔ ایک ایسا شخص جس کی نہ صرف القاعدہ میں فعال سرگرمی کی تاریخ ہے بلکہ وہ بین الاقوامی دہشتگردی کے مقدمات میں زیر بحث شخصیات میں سے ایک ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے حوالے سے اسرائیلی ذرائع نے خبردار کیا کہ وہ کوٹ پینٹ سوٹ میں ایک سابق لڑاکا ہے اور حالات کو معمول پر لانے کے لئے ان کے ارادوں پر شک ہے۔
دریں اثنا، ترک وزیر خارجہ نے ترکی، امریکہ اور شام کے درمیان انطالیہ میں سہ فریقی مذاکرات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ یہ علاقائی سیاست کی تشکیل نو کے لئے کثیرالجہتی کوششوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
اگرچہ کچھ تجزیہ کار شام کی عالمی اقتصادی مدار میں بات کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی کسی کو یہ سوال ضرور کرنا چاہیے: کیا یہ نار ملائیزیشن ساختی اصلاحات کا باعث بنے گی یا یہ پرانے بحرانوں پر محض ایک سفارتی نقاب ہوگا؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب بند کمرے کی ملاقاتوں سے نہیں بلکہ مستقبل سے واضح ہوگا۔