اسلامی دنیاتاریخ اسلامشیعہ مرجعیت

15 ذی القعدہ؛ یوم شہادت آیۃ اللہ محمد تقی برغانی المعروف بہ شہید ثالث رحمۃ اللہ علیہ

تیرہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم و فقیہ، مجاہد و شہید آیۃ اللہ محمد تقی برغانی المعروف بہ شہید ثالث رحمۃ اللہ علیہ سن 1172 ہجری کو قزوین (ایران) کے علاقہ برغان کے ایک معروف دینی اور علمی خانوادہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ملا محمد ملائکہ رحمۃ اللہ علیہ اور دادا ملا محمد تقی طالقانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے کے نامور عالم دین تھے۔

آیۃ اللہ محمد تقی برغانی رحمۃ اللہ علیہ نے سطح تک ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد سے برغان میں حاصل کی، اس کے بعد حوزہ علمیہ قزوین میں داخل ہوئے، مزید اعلی دینی تعلیم کے لئے حوزہ علمیہ قم  تشریف لے گئے جہاں میرزا قمی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شرکت کی۔ قم سے اصفہان تشریف لے گئے اور وہاں بزرگ اساتذہ سے حکمت و کلام کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد کربلا معلی عراق تشریف لے گئے اور وہاں چند سال صاحب ریاض آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شرکت کی اور ایران واپس آ گئے۔

ایران واپسی پر تہران میں قیام فرمایا۔ جہاں تدریس، نماز جماعت اور دیگر دینی خدمات میں مصروف ہو گئے۔ آپ اپنی نمایاں خصوصیات کے سبب بہت جلد مقبول خاص و عام ہو گئے۔

کچھ عرصہ تہران میں قیام کے بعد دوبارہ کربلائے معلی عراق تشریف لے گئے۔ جہاں دوبارہ اپنے استاد صاحب ریاض آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شامل ہوئے۔ کچھ دن بعد استاد کے حکم پر کربلائے معلی میں تدریس شروع کی اور ایک مسجد تعمیر کی جس میں نماز جماعت کے علاوہ تبلیغ وعظ فرماتے تھے۔ پہلے یہ مسجد برغانی کے نام سے مشہور تھی لیکن آپ کی شہادت کے بعد "مسجد شہید ثالث” کہی جانے لگی۔

کربلائے معلی میں صاحب ریاض آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر بزرگان سے اجازہ اجتہاد حاصل کیا۔ جس کے چند سال بعد ایران واپس آئے اور قزوین میں سکونت اختیار کی۔ قزوین میں درس و تدریس، وعظ و تبلیغ کے علاوہ دیگر دینی، علمی، تعلیمی اور فلاحی خدمات میں مصروف ہو گئے۔ نیز حوزہ علمیہ قزوین کی زعامت فرمائی۔

آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے۔ جن میں صاحب قصص العلماء آیۃ اللہ میرزا محمد تنکابنی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ سید ابراہیم موسوی قزوینی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سرفہرست ہیں۔

آیۃ اللہ العظمیٰ محمد تقی برغانی رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف دینی موضوعات پر تصنیف و تالیف فرمائی۔ آپ کے کتابوں کی طویل فہرست ہے جن میں "عیون الاصول”، "منہج الاجتہاد”، "ملخص العقائد”، اور "مجالس المتقین” سر فہرست ہیں۔

آیۃ اللہ محمد تقی برغانی رحمۃ اللّٰہ علیہ دینی، تعلیمی اور فلاحی خدمات کے باوجود عالم اسلام خصوصا اپنے ملک کے سیاسی مسائل سے غافل نہیں رہے بلکہ ایران اور روس جنگ کے دوران آیۃ اللہ سید محمد مجاہد رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر علماء کے ساتھ شریک ہوئے اور اپنی ایک کتاب میں اسلام دشمن طاقتوں کے شر سے محفوظ رہنے کی دعا بھی تحریر فرمائی۔

اسی طرح منحرف فرقوں کے سامنے بھی آپ نے سکوت کو جرم سمجھا اور انتہائی شجاعت اور جرات سے مقابلہ کیا۔ جیسے فرقہ شیخیہ اور بابیہ کی کھل کر مخالفت کی۔

فرقہ شیخیہ کے بانی شیخ احمد احسائی جب 1240 ہجری کو ایران آئے تو مختلف شہروں میں ان کا استقبال ہوا۔ جب انہوں نے اپنے گمراہ کن عقائد و افکار بیان کئے تو آیۃ اللہ محمد تقی برغانی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض علماء کی درخواست پر شیخ احمد احسائی کو مناظرے کی دعوت دی۔ جس میں انہوں نے شیخ احمد احسائی کی تکفیر کی۔ جس کے بعد آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد مہدی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ (فرزند صاحب ریاض)، آیۃ اللہ العظمیٰ محمد جعفر استرآبادی رحمۃ اللہ علیہ، ملا آقا دربندی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد حسین اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابراہیم موسوی قزوینی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور صاحب جواہر آیۃ اللہ العظمیٰ محمد حسن نجفی رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ احمد احسائی کے کفر کا فتوی دیا۔

آیۃ اللہ العظمی محمد تقی برغانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی بہت جلد عالم اسلام میں پھیل گیا۔ نتیجہ میں شیخ احمد احسائی اور اس کے طرفداروں سے لوگ دور ہو گئے۔ شیخ احمد احسائی نے مجبور ہو کر سفر حج کے بہانے ایران سے سفر کیا اور کچھ دن بعد دنیا سے گذر گیا۔ آیۃ اللہ العظمیٰ محمد تقی برغانی رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ احمد احسائی کے بعد اس کے جانشین سید کاظم رشتی کی بھی تکفیر کی۔

آیۃ اللہ العظمیٰ محمد تقی برغانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرقہ بابیہ کی پیدائش پر اس کی شدید مخالفت کی اور فرقہ بابیہ کی گمراہی اور ان کے کفر کا فتوی دیا۔ جس سے فرقہ بابیہ کی بنیادیں لرز گئیں۔

آیۃ اللہ العظمیٰ محمد تقی برغانی رحمۃ اللہ علیہ نے صوفیت کی بھی شدید مخالفت کی۔ جس کے سبب ان کو ایران سے جلا وطن بھی ہونا پڑا۔

گمراہ فرقہ شیخیہ اور بابیہ کی جانب سے آپ کی بھی مخالفت ہوئی لیکن آپ  اپنے موقف پر ثابت قدم رہے۔ آخر 15 ذی القعدہ 1263 ہجری کو صبح میں قزوین کی مسجد کے محراب عبادت میں فرقہ بابیہ کے چند دہشت گردوں نے آپ پر حملہ کیا اور آپ شہید ہو گئے اور "شہید ثالث” کے لقب سے مشہور ہوئے۔

اگرچہ شہید قاضی نور اللہ شوستری رحمۃ اللہ علیہ کی شہرت "شہید ثالث” کے عنوان سے زیادہ ہے اور بعض حضرات آیۃ اللہ العظمیٰ محمد تقی برغانی رحمۃ اللہ علیہ کو "شہید رابع” بھی کہتے ہیں۔ لیکن ثالث یا رابع ہونا اہم نہیں ہے۔ بلکہ یہ جاننا اہم ہے کہ قاضی سید نور اللہ شوستری رحمۃ اللہ علیہ اور ملا محمد تقی برغانی رحمۃ اللہ علیہ نے احقاق حق اور ابطال باطل کیا۔ مذہب حق کی حمایت کی اور گمراہوں کی کھل کر مخالفت کی اور اس راہ میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی۔

متعلقہ خبریں

Back to top button