اسلامی دنیاتاریخ اسلاممقالات و مضامینمقدس مقامات اور روضے

11 ذی القعدہ: یوم ولادت باسعادت حضرت امام علی رضا علیہ السلام

حضرت امام علی رضا علیہ السلام ہمارے آٹھویں امام ہیں۔ آپ علیہ السلام کے والدِ گرامی حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام (باب الحوائج) تھے اور والدہ محترمہ حضرت نجمہ خاتون سلام اللہ علیہا تھیں۔

جناب نجمہ خاتون سلام اللہ علیہا سے منقول ہے کہ جب وہ امام علی رضا علیہ السلام کے حاملہ تھیں تو انہیں حمل کی سنگینی کا کوئی احساس نہ ہوتا تھا۔ خواب میں وہ تسبیح و تہلیل کی آوازیں سنتی تھیں، لیکن جب بیدار ہوتیں تو وہ آوازیں ختم ہو چکی ہوتیں۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا اسمِ گرامی "علی”، کنیت "ابوالحسن” اور آپ کے القاب میں "سراج اللہ”، "نور الہدیٰ”، "قرۃ عین المؤمنین”، "مکیدۃ الملحدین”، "کافی الخلق”، "الرضی”، "الرضا”، "المرتضیٰ”، "رب السریر”، "رب التدبیر”، "الفاضل”، "الصابر”، "الوفی”، "الصدیق”، "صابر”، "زکی”، "ولی”، "سلطان عرب و عجم”، "غریب الغرباء”، "امام رؤوف” اور "عالم آل محمد” شامل ہیں۔ ان میں سب سے مشہور لقب "رضا” ہے، جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی اسی لقب سے آپ کا ذکر فرمایا۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت سبیکہ سلام اللہ علیہا تھیں، جو نہایت پاکدامن خاتون تھیں۔ انہی سے امام محمد تقی علیہ السلام (جواد الائمہ) تولد ہوئے۔ اسی فرزند سے سلسلۂ امامت آگے بڑھا اور آپ کی نسل بھی جاری رہی۔

ایک اور روایت کے مطابق عباسی حکمران مامون نے ولایتِ عہدی کے موقع پر اپنی بیٹی اُمّ حبیبہ کا نکاح حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے کیا، لیکن اس خاتون سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے اکلوتے فرزند تھے، اور چونکہ بعد کے ائمہ یعنی امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کو بھی "ابن الرضا” کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا، لہٰذا امام علی رضا علیہ السلام کی نسل سے منسوب جتنے بھی افراد کے مزارات یا نام ملتے ہیں، ممکن ہے وہ ان کی نسل کے بزرگ ہوں جن کے درمیان کے نام حذف ہو گئے ہوں یا پھر آپ کے خاندان کے دیگر معزز افراد ہوں۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے منتخب کردہ امام اور اس کی حجت تھے۔ رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب بارہ ائمہ علیہم السلام کے اسمائے گرامی کا ذکر فرمایا تو ان میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا نام اور لقب بھی صراحت کے ساتھ شامل تھا۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام (باقر العلوم) اور حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے متعدد مواقع پر حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی امامت کی تصدیق اور اعلان فرمایا۔

افسوس کہ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بعض دنیا پرست وکلاء نے حرص و ہوس کے سبب حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی امامت کا انکار کیا اور یوں فرقہ "واقفیہ” کی بنیاد رکھی۔

یہی عمل پہلے بھی اس وقت دیکھا گیا جب خلیفہ سوم کے قتل کے بعد مسلمانوں نے حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی، لیکن شام کے گورنر نے محض اپنی حکومت کے تحفظ کی خاطر بیعت سے انکار کر دیا۔

اسی طرح فرقہ واقفیہ کے سربراہوں نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت کا انکار کیا، تاکہ ان کے پاس موجود شرعی رقوم حضرت امام علی رضا علیہ السلام تک نہ پہنچ سکیں۔ حالانکہ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت روز روشن کی طرح عیاں تھی؛ آپ کو کئی برس قید و بند کی صعوبتوں کے بعد زہر دے کر شہید کیا گیا، اور آپ کا جنازہ بغداد کے پل پر اس غرض سے رکھا گیا کہ لوگوں کو گمراہ کیا جا سکے کہ امام علیہ السلام طبعی موت سے وفات پا گئے ہیں۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اپنی شہادت سے کچھ عرصہ قبل محمد بن سنان سے فرمایا تھا:
"اس سال ایک حادثہ رونما ہو گا، تم اس سے رنجیدہ نہ ہونا۔”
اور پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"جو میرے بیٹے پر ظلم کرے گا اور میرے بعد اس کی امامت کا انکار کرے گا تو گویا اس نے امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر ظلم کیا اور ان کی بلا فصل خلافت کا انکار کیا۔”

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button