اسلامی دنیاافغانستانخبریں

افغانستان میں طالبان کا لازمی یونیفارم حکم، تعلیمی بحران میں شدت

کابل: طالبان حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں میں لازمی روایتی یونیفارم کی پالیسی نے افغانستان میں تعلیم کے شعبے کو مزید بحران کا شکار بنا دیا ہے۔ (آمو ٹی وی) کی رپورٹ کے مطابق، اس نئے حکم کے تحت ہزاروں طلبہ اسکولوں سے باہر ہو رہے ہیں، کیونکہ یا تو وہ لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے یا سماجی دباؤ کا شکار ہیں۔

طالبان کی نئی پالیسی کے مطابق تمام مرد طلبہ اور اساتذہ کے لیے "پیرہن تنبان” (لمبا کرتا اور شلوار) کے ساتھ عمامہ یا ٹوپی پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس حکم پر سختی سے عمل درآمد کروایا جا رہا ہے اور مالی مشکلات رکھنے والے طلبہ کے لیے کوئی رعایت نہیں دی گئی۔

تفصیلات کے مطابق، پہلی سے نویں جماعت تک کے طلبہ کو نیلا جبکہ دسویں سے بارہویں جماعت تک کے طلبہ کو سفید لباس اور سر ڈھانپنے کی پابندی کی گئی ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ کئی طلبہ مہنگے یونیفارم نہ خرید سکنے کے باعث اسکول چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں، جبکہ بعض کو نکال دیا گیا ہے۔

یہ اقدام طالبان کی اس وسیع تر پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت تعلیمی نظام کو ان کی مذہبی سوچ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی سلسلے میں دنیاوی مضامین کو اسلامی تعلیمات سے بدلنے کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔

یاد رہے کہ طالبان نے اگست 2021 میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لڑکیوں کی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ لڑکوں کے لیے یونیفارم کی سخت شرائط اس بات کا اشارہ ہو سکتی ہیں کہ مستقبل میں ان پر بھی مزید سختیاں عائد کی جائیں گی۔

ماضی میں اس نوعیت کا لباس صرف دینی مدارس میں رائج تھا، لیکن اب اسے پورے ملک کے اسکولوں پر نافذ کر کے طالبان اپنی مخصوص شناخت کو قومی تعلیمی نظام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

سرکاری میڈیا اس اقدام کو ثقافتی اصلاحات کا نام دے رہا ہے، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی تعلیم کے فروغ سے زیادہ کنٹرول اور نظریاتی تسلط کو ترجیح دیتی ہے۔ طالبان حکومت نے اس پالیسی کے خلاف بڑھتی ہوئی تنقید کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button