خواتین پر وسیع پیمانے پر پابندیوں کی وجہ سے افغانستان کے سماجی و اقتصادی بحران میں اضافہ

بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ، پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر واپسی اور خواتین کے خلاف سخت پابندیوں نے افغانستان کو ایک وسیع انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے، جس نے لاکھوں لوگوں خاص طور پر دیہی علاقوں اور خواتین کی سربراہی والے گھرانوں کے لئے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے باخبر کیا کہ افغانستان کو ایک گہرے سماجی اور اقتصادی بحران کا سامنا ہے، ملک کے 75 فیصد لوگ اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔
ان میں خواتین کی سربراہی والے گھرانوں، دیہی علاقوں کے مکینوں اور اندرونی طور پر بے گھر افراد کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
دریں اثنا، افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی ایک نئی رپورٹ، خواتین کے خلاف طالبان کے جابرانہ پالیسیوں کے تسلسل کی نشاندہی کرتی ہے۔
یہ پابندیاں جن میں لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمت پر پابندی سے لے کر بغیر محرم کے خواتین کے لئے بیوٹی سیلون اور چوکیاں بند کرنے تک شامل ہیں، نے عوامی حلقوں سے خواتین کی موجودگی کو موثر طریقے سے ختم کر دیا ہے۔ مردوں اور خواتین کے درمیان سماجی اور اقتصادی خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین پر یہ پابندیاں صرف 2024 سے 2026 کے درمیان ملک کو تقریبا 920 ملین ڈالر کا معاشی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
دوسری جانب افغانستان نے گزشتہ سال ایران اور پاکستان سے دسیوں ہزار مہاجرین کی واپسی کا مشاہدہ کیا ہے۔
اس سال یہ تعداد 600000 سے 1.5 ملین افراد تک پہنچنے کی امید ہے۔
مہاجرین کی یہ واپسی بین الاقوامی امداد میں تیزی سے کمی کے ساتھ ملک کے محدود وسائل اور کمزور بنیادی ڈھانچے پر اضافی دباؤ ڈالے گی۔
اقوام متحدہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ افغان بحران کا حل صرف فوری امداد سے ممکن نہیں ہوگا اور اس کے لئے پائیدار اقتصادی اور سماجی حل اور خواتین پر عاید پابندیاں ختم کرنے کی کی ضرورت ہے۔