
جنوبی فرانس کی ایک مسجد میں ایک نوجوان مسلمان کے قتل کے بعد ملکی میڈیا اور حکام نے مسلمانوں کے خلاف تشدد سے نمٹنے میں دوہرے معیار سے خبردار کیا۔
ایک ایسا مسئلہ جس کا فرانسیسی وزیراعظم کے مطابق اسلامو فوبیا کو تسلیم کئے بغیر مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
جنوبی فرانس کے علاقہ "لا گرانڈ کومب” کی ایک مسجد میں ایک 22 سالہ جوان کے دل دہلا دینے والے قتل کے بعد ملکی میڈیا نے مسلمانوں کے خلاف حکومت کے غیر منصفانہ رویے پر رد عمل کا اظہار کیا۔
اخبار "لومونڈ ” نے اپنے اداریہ میں وزیر داخلہ کی جائے وقوعہ پر عدم موجودگی کو دوہرے معیار کی علامت قرار دیتے ہوئے لکھا کہ وہ نانٹیس میں ایک طالب علم کے قتل کے چند گھنٹے بعد ہی نظر آئے، لیکن سیسیئر کے قتل کے تین دن بعد کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔
"لومونڈ” نے خبردار کیا کہ حقیقی سیکولرازم کو مذہبی آزادی اور سماجی بقائے باہمی کے درمیان توازن قائم کرنا چاہیے اور یہ متاثرین کے دکھ کو نظر انداز کرنے کا بہانہ نہیں ہو سکتا۔
اس سلسلہ میں فرانسیسی وزیر اعظم "فرانسوا بایرو” نے ڈو ڈمانش کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہم کسی ایسی چیز سے لڑ نہیں سکتے جس کا نام لینے کو تیار نہ ہوں۔
انہوں نے اس نوجوان مسلمان کے قتل کو اسلامو فوبیا جرم قرار دیا اور اسلامو فوبیا کی اصطلاح استعمال کرنے میں سیاسی جرات کا مطالبہ کیا۔
ایک اصطلاح جسے وزیر داخلہ برونو ریٹائو اس وجہ سے گریز کرتے ہیں کہ وہ اسے اخوان المسلمین کے ساتھ وابستگی کہتے ہیں۔
یہ اس حقیقت کے باوجود کہ مسلم نوجوان کے خاندان نے وزیر داخلہ کی ملاقات کی دعوت کو مسترد کر دیا ہے۔
لی سگاروں کے ساتھ ایک انٹرویو میں خاندان کے وکیل یاسین بوزرو نے وزیر کے رویے کو توہین آمیز قرار دیا۔
اس واقعہ کے بعد مسلمانوں کے نمائندوں اور اسلامی اداروں کے ایک گروپ میں فرانسیسی حکومت کی امتیازی پالیسیوں پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔