اسلامی دنیاتاریخ اسلامشیعہ مرجعیت

سید ابن طاؤوسؒ: علم، عمل اور تقویٰ کا پیکر

ساتویں صدی ہجری کے جلیل القدر شیعہ عالم، فقیہ، عارف اور زاہد سید رضی الدین ابوالقاسم علی بن موسیٰ بن جعفر بن طاؤوسؒ 15 محرم الحرام 589 ہجری کو حلّہ (عراق) میں ایک علمی اور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید موسیٰ بن جعفرؒ ایک جید عالم اور راوی حدیث تھے جبکہ والدہ، معروف شیعہ فقیہ و محدث وَرّام بن ابی فراس حلّیؒ کی نیک سیرت بیٹی تھیں۔ جناب ورّامؒ نہ صرف آپ کے نانا تھے بلکہ آپ کے مربی، استاد اور رہنما بھی تھے۔ ان کی نصیحت "علم و عمل میں کبھی بھی کم پر راضی نہ ہونا” سید ابن طاؤوسؒ کی زندگی کا منشور بنی۔

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد اور نانا سے حاصل کی اور بچپن میں ہی فقہ میں اس درجہ کمال حاصل کر لیا کہ ڈھائی سال میں وہ مرحلہ طے کر لیا جس کے لیے دوسروں کو کئی سال درکار ہوتے۔ لیکن علم میں بلندی کے باوجود فتویٰ دینے میں حد درجہ احتیاط برتتے اور سورہ الحاقہ کی آیات پڑھ کر فرمایا کرتے کہ جب اللہ نے پیغمبر سے بھی سختی سے بازپُرس کی تو ہم کس شمار میں ہیں۔

تعلیم کے بعد آپ کاظمین تشریف لے گئے اور وہاں وزیر مملکت کی دختر سے شادی کے بعد بغداد منتقل ہو گئے، جہاں پندرہ سال قیام فرمایا۔ عباسی خلیفہ مستنصر نے بارہا آپ سے مفتی اعظم، وزیر اعظم اور درباری مشیر بننے کی درخواست کی، لیکن آپ نے دنیاوی مناصب کو یکسر رد کر دیا اور آخرکار حلّہ واپس آ گئے۔

حلّہ، نجف، کربلا اور دوبارہ بغداد آپ کی علمی و روحانی زندگی کے اہم مراحل تھے۔ بغداد میں قیام کے دوران ہلاکو خان کی یلغار ہوئی اور عباسی خلافت کا خاتمہ ہوا۔ اس نازک وقت میں آپ نے حتی الامکان کوشش کی کہ عوام کا جانی و مالی نقصان کم ہو۔ ہلاکو خان کے سامنے جب علماء سے سوال کیا گیا کہ عادل کافر بہتر ہے یا ظالم مسلمان، تو آپ نے واضح فرمایا: "عادل حاکم ظالم سے بہتر ہے” — جو آپ کی دینی بصیرت، علی علیہ السلام شناسی اور عدل پسندی کا مظہر تھا۔

ہلاکو خان نے علویوں کی نقابت کا عہدہ آپ کو پیش کیا، پہلے تو آپ نے انکار کیا لیکن خواجہ نصیر الدین طوسیؒ کی سفارش پر قبول کر لیا تاکہ حالات کو سنبھالا جا سکے۔ کچھ مخالفین نے الزام لگایا کہ شیعہ حضرات نے کافروں کی مدد کی، لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ آپ کا یہ فیصلہ دور اندیشی اور امت کی حفاظت کے لیے تھا۔

سید ابن طاؤوسؒ نے کئی قیمتی کتب تصنیف کیں، جن میں سب سے مشہور "اقبال الاعمال” اور "اللهوف علی قتلی الطفوف” ہیں۔ لہوف امام حسینؑ کے مدینہ سے روانگی سے لے کر اہلِ حرم کے مدینہ واپسی تک کے واقعات پر مشتمل ہے۔ علما نے اس کتاب کو مستند مانا اور خطبا و ذاکرین کو اس سے مصائب پڑھنے کی تاکید کی۔

آپ کی شخصیت جہاں علمی عظمت کی مظہر تھی، وہیں تقویٰ، زہد، دعا و مناجات میں بھی بے مثال تھی۔ دنیاوی مناصب سے کنارہ کشی، فتویٰ میں احتیاط، اور دعا و عبادت میں انہماک آپ کو "جمال العارفین” کے لقب کا حقدار بناتے ہیں۔ آپ نے 5 ذی القعدہ 664 ہجری کو بغداد میں وفات پائی اور نجف اشرف میں امیرالمومنینؑ کے جوار میں دفن ہوئے۔

اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں بھی علم، عمل، معرفت اور زہد کی توفیق عطا کرے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button