مادی نعمتیں ہوں یا روحانی سب اللہ نے بطور فضل عطا کیا ہے: آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی

مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ کا روزانہ کا علمی جلسہ حسب دستور 2 ذی القعدہ 1446 ہجری کو منعقد ہوا جس میں گذشتہ جلسات کی طرح حاضرین کے مختلف فقہی سوالات کے جوابات دیے گئے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے سورہ نساء آیت 32 "وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِن فَضْلِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا” (اور خبردار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچھ زیادہ دیا ہے اس کی تمنّا اور آرزو نہ کرنا مردوں کے لئے وہ حصہّ ہے جو انہوں نے کمایا ہے اور عورتوں کے لئے وہ حصہّ ہے جو انہوں نے حاصل کیا ہے- اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو کہ وہ بیشک ہر شے کا جاننے والا ہے۔) کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انسان کے مادی معاملات ہوں یا روحانی مسائل ہوں، یہ ماننا چاہیے کہ اس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ خدا کی جانب سے بطور فضل ملا ہے۔ جس طرح خلقت اور عقل ہدیہ الہی ہے اور ہر وہ فضیلت جو اکتسابی ہے اور اسے نہیں ملی ہے اس کی تلافی ممکن ہے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے فضائل کے نسبتی ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: بعض اوقات روایات میں ہم دیکھتے ہیں کہ صدقہ کو افضل ترین اعمال میں شمار کیا گیا ہے اور کبھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کو افضل ترین عمل کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے جو کہ بلاغت کی صورتوں میں سے ہے اور اس سے نسبت کا مفہوم اخذ کیا گیا ہے۔ مثلا روایت ہے کہ "امیر المومنین علیہ السلام افضل ترین مخلوق ہیں۔” امیر المومنین علیہ السلام کا افضل ہونا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے بنسبت نہیں ہے۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے علاوہ تمام انسانوں سے افضل ہیں۔ لہذا ایسی صورتوں میں آیات قرآنی اور احادیث میں اس قسم کے فضائل کے صحیح معنی کے لئے حکم کی مناسبیت، موضوع اور ظاہری شواہد پر توجہ دینی چاہیے۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے روایات میں اعمال کے ابتر ہونے کے سلسلہ میں فرمایا: روایت میں ہے "كل أمر ذي بال لم يذكر ” بسم الله ” فيه فهو أبتر” ہر کام جو اللہ کے نام سے شروع نہ ہو ابتر ہے، اور دوسری روایت میں ہے "كل أمر ذي بال لم يذكر فيه اسم الله فهو أبتر” ہر وہ کام جس میں اللہ کا نام نہ لیا جائے وہ ابتر ہے۔ اور ایک روایت میں ہے "كل أمر ذي بال لم يذكر بحمد الله فهو أبتر” ہر وہ کام جس میں اللہ کی حمد نہ ہو وہ ابتر ہے۔ یہ تمام بلاغت کی صورتیں ہیں اور انہیں اضافی کہا جاتا ہے۔ اور یہ آیات قرآن، روایات میں متعارف ہیں اور ہماری گفتگو میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلا جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص اچھا انسان ہے تو کہتے ہیں یہ انسان سب سے بہتر ہے۔ جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ حتی انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے بھی بہتر ہے۔ کیونکہ یہ کہنے میں ہمارا ارادہ یہ نہیں ہوتا کہ یہ شخص عالم بشریت سے بہتر ہے۔ لہذا اس طرح کی صورتیں آیات و روایات جن میں نسبتی اور اضافی کا تصور ہوتا ہے برتر اور حصر دونوں لحاظ سے استعمال ہوتا ہے، یہ مطلق نہیں سمجھا جاتا اور یہ قرائن سے سمجھا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ کے یہ روزانہ علمی نشستیں قبل از ظہر منعقد ہوتی ہیں، جنہیں براہ راست امام حسین علیہ السلام سیٹلائٹ چینل کے ذریعے یا فروکوئنسی 12073 پر دیکھا جا سکتا ہے۔