اسلامی دنیاخبریںشامعراق

الہول کیمپ شام میں "مِنی داعش خلافت" کے بارے میں انتباہ

ان دنوں شمال مشرقی شام میں واقع الہول کیمپ نہ صرف ایک پناہ گاہ ہے بلکہ انتہا پسند سنی دہشت گرد گروہ کی جانب سے لاحق نظریاتی خطرے کی زندہ علامت بن گیا ہے، جسے "مِنی داعش خلافت” کی شکل میں دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

شمال مشرقی شام میں الہول نامی کیمپ میں تقریبا 60000 خاندان اور شدت پسند سنی گروپ داعش کے جنگجوؤں کے بچ جانے والے افراد مقیم ہیں۔

خواتین جن میں سے اکثر اس دہشت گرد گروہ کے سابق ارکان کی بیویاں ہیں اور وہ بچے جو تشدد اور تکفیری نظریات کے سائے میں پلے بڑھے ہیں۔

الجزیرہ اور خطہ کے کچھ سیکورٹی ذرائع کے مطابق کیمپ کے مکینوں کا ایک اہم حصہ انتہا پسند سنی گروپ داعش کے انتہا پسندانہ تعلیمات اور عقائد کے ساتھ وفادار ہے۔

اسی وجہ سے ماہرین اس جگہ کو "مِنی داعش خلافت” کہتے ہیں۔ کیونکہ وہاں نہ صرف انتہا پسندانہ خیالات کو فروغ دیا جاتا ہے بلکہ انتہا پسند مذہبی تربیت، خود ساختہ احکام کے نفاذ اور یہاں تک کہ کیمپ کے اندر تشدد کی بھی اطلاعات ملتی ہیں۔

فیلڈ رپورٹس بتاتی ہیں کہ کیمپ پر مکمل طور پر قابو پانا مشکل ہو گیا ہے اور سیاہ نقاب پہنے ہوئے کچھ خواتین خفیہ طور پر انتہا پسند مذہبی تعلیم کے حلقوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب بچوں کی ایک نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے جو منحرف تکفیری نظریات سے براہ راست متاثر ہیں۔ ایک ایسا مسئلہ جو خطہ اور عالم اسلام کے مستقبل کی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ عالم اسلام ایسے خطرے سے لا تعلق نہیں رہ سکتی۔

ماہرین کے مطابق اسلامی ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے لئے ضروری ہے کہ وہ الہول کے مسئلہ کو تعلیمی، ثقافتی اور سیکورٹی کے ساتھ حل کریں تاکہ شدت پسندوں کی نئی نسل کی افزائش کو روکا جا سکے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button