محرک عزائے فاطمی : آیۃ اللہ العظمی میرزا جواد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ

مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمی میرزا جواد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ ۱۳۴۵ھ میں ایران کے شہر تبریز میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد، حاج علی کبار مرحوم، ایمان اور عدالت کے سبب معروف تھے جبکہ آپ کی والدہ محترمہ سیدہ فاطمہ سلطان دیندار خاتون تھیں۔
ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے عصری ہائی اسکول سے تعلیم حاصل کی، اور نمایاں کامیابی حاصل کرتے رہے۔ تاہم دینی علوم اور خدمتِ دین کا شوق آپ کو تبریز کے مدرسہ طالبیہ لے آیا۔ احباب کی مخالفت کے باوجود آپ نے والد کو راضی کیا اور چار سال میں مقدماتی تعلیم مکمل کی۔
اس کے بعد آپ حوزہ علمیہ قم مقدس تشریف لے گئے جہاں آیۃ اللہ العظمی سید محمد حجت کوہ کمری رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمی بروجردی رحمۃ اللہ علیہ جیسے جلیل القدر علماء سے کسب فیض کیا۔ تدریس میں آپ کی مہارت اور علمی عظمت نے طلاب کی کثرت کو جذب کیا اور آیۃ اللہ بروجردی نے آپ کو حوزہ قم کا ممتحن مقرر فرمایا۔
آیۃ اللہ تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی دلی تمنا تھی کہ نجف اشرف میں تعلیم حاصل کریں، مگر حالات اجازت نہ دیتے تھے۔ ایک تاجر کی مدد سے آپ کو یہ موقع نصیب ہوا اور پانچ سال قم میں قیام کے بعد آپ نجف اشرف روانہ ہو گئے۔ وہاں مدرسہ قوام السلطنہ میں قیام فرمایا اور آیۃ اللہ العظمی سید عبدالھادی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ اور استاد الفقہاء آیۃ اللہ العظمی سید ابوالقاسم خوئی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شرکت کی۔
آیۃ اللہ خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی علمی قابلیت کو پہچانتے ہوئے آپ کو اپنی مجلس استفتاءات میں شامل کیا اور آپ کے روشن مستقبل کی پیشگوئی فرمائی۔ آیۃ اللہ العظمی محسن الحکیم رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد آپ نے نجف اشرف میں درس خارج کی تدریس کا آغاز کیا، جس پر آیۃ اللہ خوئی نے مسرت کا اظہار کیا۔
افسوس کہ صدام ملعون کے ظلم کی وجہ سے آپ کو عراق چھوڑنا پڑا اور آپ قم مقدس واپس آ گئے۔ قم میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ آپ نے ہمیشہ تواضع اور اخلاص کا مظاہرہ کیا، طلبہ کے لیے شفیق باپ کی حیثیت رکھتے اور شرعی رقومات کا حد درجہ احتیاط سے استعمال کرتے۔
آیۃ اللہ العظمی میرزا جواد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ نے مرجعیت کا بار لوگوں کے اصرار پر قبول کیا، خصوصاً آیۃ اللہ العظمی اراکی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد جب جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم نے سات مراجع تقلید کا اعلان کیا جس میں آپ کا نام بھی شامل تھا۔
جہاں علمی اعتبار سے آپ کا مقام بلند تھا وہیں اہلبیت علیہم السلام کی محبت، عزاداری اور مجالس کے قیام میں آپ کو خاص اہتمام حاصل تھا۔ ہر جمعرات کو مجلس عزا منعقد کرتے اور توسل و عزاداری کو اپنی زندگی کا اہم جزو سمجھتے۔ آپ ہمیشہ اہلبیت کے ذکر کو فوقیت دیتے اور اپنی ذات کا ذکر کرنے سے منع کرتے۔
عزاداری فاطمیہ کی احیاء میں آپ کا کردار نمایاں تھا۔ آپ ۳ جمادی الثانی کو، یوم شہادت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر، برہنہ پا حسینیہ سے روضہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا تک پیدل تشریف لے جاتے تھے۔ حکومت کی جانب سے پانی چھڑکنے کی پیشکش کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ مدینہ میں بی بی سلام اللہ علیہا نے جو مصائب برداشت کیے، ان کے سامنے یہ کچھ بھی نہیں ہے۔
آپ عزاداری کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کرتے کہ کاش درس کی یہ نشست بھی مجلس عزا ہوتی، اور اہلبیت علیہم السلام پر اعتراض کرنے والوں کا سختی سے رد فرماتے۔ دوران درس کسی طالب علم کی جانب سے مجلس عزا کی اہانت آمیز بات پر آپ کا چہرہ متغیر ہو جاتا اور آپ عقیدت اور احترام کی تلقین کرتے۔
آخرکار ۲۸ شوال ۱۴۲۷ھ کو آپ نے وفات پائی اور کریمہ اہلبیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے جوار میں دفن ہوئے۔ آپ کی حیات علم، عزاداری، اخلاص اور تواضع کا درخشندہ نمونہ ہے۔