
مرکزی حکومت نے اپنے حلف نامہ میں کہا ہے کہ وقف ترمیمی قانون مسلم سماج کی بہتری اور شفافیت کے لیے لایا گیا قانون ہے، اس سے کسی آئینی حق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔
وقف ترمیمی قانون کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب داخل کر دیا ہے۔ مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور نے عدالت عظمیٰ میں حلف نامہ جمع کر عدالت میں داخل عرضیوں میں عائد کردہ سبھی الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ وقف قانون 2025 سے کسی بھی طرح کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ حکومت نے عدالت سے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کسی التزام پر بالواسطہ یا بلاواسطہ طور سے روک نہ لگائے۔ عدالت وقف معاملے پر عارضی روک لگاتے ہوئے پوری سماعت کر آخر میں کوئی فیصلہ لے۔ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس آئینی جواز کی جانچ کی طاقت ہے، لیکن پارلیمنٹ نے جس قانون کو پاس کیا ہے، اس پر روک لگانا مناسب نہیں ہے۔
مرکزی حکومت نے عدالت عظمیٰ میں داخل حلف نامہ میں کئی نکات پیش کیے ہیں۔ اس حلف نامہ میں شامل اہم باتیں ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں۔
سپریم کورٹ میں داخل عرضیوں میں کسی بھی انفرادی معاملے میں ناانصافی کی شکایت نہیں کی گئی ہے، ایسے میں یہ کسی شہری حقوق کا مسئلہ نہیں ہے۔
ہندو مذہبی اداروں کے مینجمنٹ سے موازنہ یا برابری کیا جانا بے بنیاد ہے۔
وقف ترمیمی قانون مسلم سماج کی بہتری اور شفافیت کے لیے لایا گیا قانون ہے، جس سے کسی آئینی حق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے۔
وقف ریاستی بورڈس اور قومی کونسل کا موازنہ عطیہ جیسے انفرادی عہدہ سے نہیں کیا جا سکتا۔
وقف ترمیمی قانون اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وقف ملکیت کی شناخت، زمرہ بندی اور ریگولیشن قانونی پیمانوں اور عدالتی نگرانی کے ماتحت ہونا چاہیے۔
وقف قانون کا ڈیزائن یہ یقینی کرتا ہے کہ کسی بھی شخص کو عدالت کی پہنچ سے محروم نہیں کیا جائے۔
وقف قانون یہ یقینی کرتا ہے کہ شہریوں کی ملکت کے حقوق، مذہبی آزادی اور عوامی عطیہ کو متاثر کرنے والے فیصلے غیر جانبداری اور جواز کی حدوں کے اندر کیے جائیں۔
قانون میں کی گئی ترامیم کی منشا وقف مینجمنٹ میں عدالتی جوابدہی، شفافیت اور غیر جانبداری کے مدنظر ہے۔
وقف قانون پُرعزم آئینی بنیاد پر ہے اور شہری حقوق کے کسی بھی التزام کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔
اس قانون میں دیے گئے وقف مینجمنٹ کے سیکولر، انتظامی پہلوؤں کو جائز طریقے سے ریگولیٹ کرنے کا التزام کیا گیا ہے۔
قانونی ریگولیشن میں عبادت کو اچھوتا چھوڑتے ہوئے مسلم طبقہ کے مذہبی اعمال کے احترام کا خیال رکھا گیا ہے۔
وقف قانون شفافیت، جوابدہی، سماجی فلاح اور مجموعی حکومت کا مقصد پورا کرتا ہے، جو آئینی اقدار اور عوامی مفادات کے موافق ہیں۔
پارلیمنٹ نے یہ قانون بنانے میں اپنے حلقۂ اختیار میں کام کیا ہے اور یہ خیال رکھا ہے کہ کسی بھی طرح سے مذہبی آزادی پر ضرب نہ لگے۔
وقف قانون مذہبی بندوبست کا مینجمنٹ مذہبی آزادی پر حملہ کیے بغیر کرتا ہے، ساتھ ہی عبادت کرنے والوں اور مسلم سماج کے ذریعہ ان پر رکھے گئے اعتماد کو بنائے رکھتا ہے۔
وقف ایکٹ قانون ساز طاقت کا ایک جائز اور آئینی استعمال ہے، جو وقف ادارہ کو مضبوط کرتا ہے۔ یہ قانون وقف مینجمنٹ کو آئینی اصولوں کے ساتھ جوڑتا ہے اور موجودہ دور میں وقف کے مجموعی کارِ عمل کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
وقف کونسل اور بورڈ کے 22 اراکین میں زیادہ سے زیادہ 2 غیر مسلم ہوں گے۔
سرکاری اراضی کو قصداً یا غلط طریقے سے وقف ملکیت کی شکل میں نشان زد کرنا ریونیو ریکارڈ کو درست کرنے کے لیے ہے اور سرکاری زمین کو کسی مذہبی طبقہ کی زمین نہیں مانا جا سکتا۔