25شوال: یومِ شہادتِ امام جعفر صادق علیہ السلام رئیس مذہب، معلم بشریت کا ماتم

رئیس مذہب، معلم بشریت، قرآن ناطق امام جعفر صادق علیہ السلام اپنی زندگی کے آخری ایام میں شدید لاغر اور کمزور ہو گئے تھے، راوی کہ جس نے اس زمانے میں آپ کی زیارت کا شرف حاصل کیا تھا، کا بیان ہے کہ امام عالی مقام اس قدر لاغر اور کمزور ہو گئے تھے کہ صرف آپ کا سر باقی تھا۔ یعنی آپ کا جسم مبارک انتہائی نحیف اور لاغر ہو گیا تھا۔ آپ کی پوری زندگی دشواریوں، سختیوں اور رنج و غم میں بسر ہوئی، عمر کے آخری حصے میں مصائب و مشکلات میں شدید اضافہ ہو گیا تھا۔
ایک دن منصور دوانقی ملعون نے اپنے وزیر ربیع سے کہا کہ ابھی فوراََ جعفر بن محمد (امام جعفر صادق علیہ السلام) کو دربار میں حاضر کرو۔
ربیع نے منصور کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے امام مظلوم کو دربار میں حاضر کیا تو منصور ملعون نے گستاخی کرتے ہوئے انتہائی غصے میں کہا: خدا مجھے قتل کرے اگر میں آپ کو قتل نہ کروں، آپ میری حکومت پر معترض ہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جس نے تمہیں یہ خبر دی ہے وہ جھوٹا ہے۔
ربیع کا بیان ہے کہ جب امام جعفر صادق علیہ السلام دربار میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت آپ کے لب ہائے مبارک حرکت کر رہے تھے۔ جب منصور کے پہلو میں تشریف فرما ہوئے اس وقت بھی آپ کے لب ہائے مبارک حرکت میں تھے اور منصور کا غصہ کم ہو رہا تھا۔
جب امام جعفر صادق علیہ السلام منصور کے دربار سے نکلے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا اور عرض کیا۔ جب آپ دربار میں داخل ہوئے تو منصور بہت غصے میں تھا اس وقت آپ کے لب ہائے مبارک حرکت کر رہے تھے اور اس کا غصہ کم ہو گیا۔ آپ کیا پڑھ رہے تھے؟
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: میں اپنے جد بزرگوار سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی دعا پڑھ رہا تھا۔
"يا عُدَّتي عِندَ شِدَّتي وَيا غَوثِي عِندَ کُربَتي اَحرِسنِي بِعَينِکَ الَّتي لا تَنامُ وَاکَنِفنِي بِِرُکنِکَ الذَّي لايُرام” (اے مشکل میں میری قوت اور اے ہنگام مصیبت میری پناہ گاہ، اپنی انکھوں سے میری حفاظت فرما جو کبھی نہیں سوتی، مجھے اپنے اس رکن (ستون) کے سائے میں قرار دے جو ثابت قدم اور اٹل ہے۔)
امام جعفر صادق علیہ السلام کے بیت الشرف کو آگ لگانا۔
جناب مفضل بن عمر سے روایت ہے کہ منصور دوانقی نے مکہ و مدینہ کے گورنر حسن بن زید کو خط لکھ کر حکم دیا: جعفر بن محمد (امام جعفر صادق علیہ السلام) کے گھر کو آگ لگا دو، اس نے حکم کی تعمیل کی اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے گھر میں آگ لگا دی کہ آپ کا گھر جلنے لگا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام تشریف لائے اور آگ کے درمیان قدم رنجہ ہوئے اور فرمایا: "اَنَا بنُ اَعراقِ الثَّري اَنا بنُ اِبراهِيمَ خَليلِ اللهِ” (میں اسماعیل کہ جن کی نسل زمین میں جڑوں کی طرح پھیلی ہوئی ہے، کا بیٹا ہوں، میں خلیل خدا ابراہیم کا بیٹا ہوں۔ (کہ جن کے لئے نار نمرودی گلزار ہوئی۔)
روایت بیان کی گئی کہ جب آگ گلزار ہو گئی تو لوگوں نے دیکھا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام گریہ فرما رہے ہیں۔ عرض کیا گیا کہ اب آپ کیوں گریہ فرما رہے ہیں؟ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب میرے گھر میں آگ لگی تو میرے اہل بیت خوف و وحشت سے گریہ کر رہے تھے اور ادھر ادھر دوڑ رہے تھے تاکہ آگ سے بچ سکیں تو مجھے اپنے جد مظلوم سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم یاد آ گئے کہ جب عصر عاشور کو حسینی خیام میں آگ لگائی گئی تو اہل حرم خیام سے بیابان کی جانب دوڑے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کے قتل کا منصوبہ
آخر کار منصور دوانقی ملعون امام جعفر صادق علیہ السلام کی فضیلت و عظمت کو برداشت نہ کر سکا لہذا اس نے زہر دغا کے ذریعہ آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا۔

یہ نکتہ فراموش نہ رہے کہ بنی عباس نے ائمہ معصومین علیہم السلام کو زہر دغا سے شہید کرنے کا طریقہ اپنے حقیقی پیشواؤں یعنی بنی امیہ سے سیکھا تھا۔ معاویہ بن ابو سفیان نے بارہا کہا تھا کہ شہد سے اللہ کا لشکر ہے۔ یعنی وہ زہریلا شہد اپنے مخالفین کو پلا کر قتل کرتا تھا۔
منصور ملعون نے مدینہ منورہ میں اپنے گورنر کے ذریعہ امام جعفر صادق علیہ السلام کو زہریلے انگور سے شہید کرایا اور بعد میں مکر و فریب کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت پر مگرمچھ کے آنسو بہائے۔ منصور نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو شہید کرایا اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کیونکہ اس نے خود بارہا کہا تھا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
اگرچہ بعض مورخین کا خیال ہے کہ منصور نے آپ کو شہید نہیں کرایا لیکن یہ ان کا خیال باطل ہے کیونکہ منصور پہلے بھی کئی مرتبہ امام کو دربار میں حاضر اور قتل کی دھمکی دے چکا تھا، اسی طرح منصور کے بعد کے عباسی حکمران بنی امیہ کے حکمرانوں کی راہ پر چلتے ہوئے ائمہ معصومین علیہم السلام کو شہید کر چکے ہیں، بنی عباس نے 6 معصوم اماموں کو شہید کیا۔ ہاں! منصور نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کے بعد افسوس کا اظہار کیا کیونکہ اسی میں مصلحت تھی۔
آخر میں یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ یہ وہی منصور تھا، جو بنی امیہ کی حکومت کے خلاف بنی عباس کے سرکردہ افراد میں تھا، خود اس کا بیان ہے کہ بنی امیہ کے خوف سے یہ بھیس بدل کر ایک بستی سے دوسری بستی پناہ لیتا تھا تاکہ بنی امیہ اسے قتل نہ کر سکیں۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ جب تم ایک بستی سے دوسری بستی جاتے تھے تو کہاں کھاتے پیتے اور رہتے تھے تو اس نے خود بیان کیا کہ میں جس بستی میں جاتا تھا وہاں شیعوں کو تلاش کرتا تھا اور ان کو امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی فضیلت کی حدیثیں سناتا تھا تو وہ مجھے تحفہ، پیسہ، کپڑا اور کھانا پانی دیتے تھے۔
اللہ اکبر! جن کی فضیلتیں بیان کر کے اپنے برہنہ جسم کو لباس پہنایا، اپنے بھوکے پیٹ کو سیر کیا، اپنی تشنگی کو سیراب کیا، مصیبت میں پناہ حاصل کی لیکن افسوس جب عہدہ و منصب ملا تو ان کی ہی اولاد کو شہید کیا۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے جن شیعوں سے مصیبت میں امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل بیان کر کے رزق حاصل کیا، حکومت ملتے ہی ان شیعوں پر ہی ظلم کیا۔
کمال یہ نہیں کہ انسان مصیبت و پریشانی میں اظہار حق کرے بلکہ کمال تو تب ہے جب عہدہ و منصب حاصل ہو اور اس کے باوجود حق کی حمایت اور اہل حق کا قصیدہ پڑھے۔