اسلامی دنیاایشیاءخبریں

غزہ: شدید غذائی قلت کے باعث کچھوے کھانے پر مجبور شہری

غزہ کی پٹی میں جاری اسرائیلی جارحیت نے انسانی بحران کو خوفناک حد تک بڑھا دیا ہے، جہاں خوراک کی شدید قلت نے لوگوں کو انتہائی غیرمعمولی اقدامات پر مجبور کر دیا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق اب صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ غزہ کے شہری کچھوے پکانے اور کھانے پر مجبور ہو چکے ہیں تاکہ اپنے بچوں کی بھوک مٹا سکیں۔

ڈیڑھ سال سے جاری اسرائیلی حملوں اور امدادی سامان کی ترسیل پر پابندی کے باعث علاقے میں غذائی اجناس کی شدید قلت ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق کئی خاندان اب بچوں کو کچھوے کا گوشت بھیڑ یا بچھڑے کا گوشت کہہ کر کھلا رہے ہیں تاکہ وہ خوف یا کراہت سے نہ کترائیں۔

غزہ کی ایک 61 سالہ خاتون ماجدہ، جو جنگ کے دوران اپنا گھر کھو چکی ہیں، بتاتی ہیں کہ انہوں نے تیسری مرتبہ کچھوے کا گوشت پکایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں کچھ بھی دستیاب نہیں، نہ گوشت اور نہ ہی مناسب سبزیاں۔ انہوں نے بتایا کہ بچے پہلے تو کچھوے کا گوشت کھانے سے ہچکچا رہے تھے، لیکن جب بھوک بڑھی تو انہیں مجبوراً کھانا پڑا۔

غزہ کے ماہی گیر عبدالحلیم قنان کے مطابق، انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ کچھوے کھائیں گے، لیکن جب کھانے کو کچھ نہ بچے تو یہ قدم اٹھانا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھوؤں کو سمندر سے شکار کر کے شرعی طریقے سے ذبح کیا جاتا ہے، کیونکہ پروٹین کی ضرورت کو پورا کرنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں بچا۔

اقوام متحدہ اور انسانی امداد کی مختلف بین الاقوامی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں قحط اب ایک خطرہ نہیں بلکہ حقیقت بنتا جا رہا ہے، جو تیزی سے پھیل رہا ہے۔ 12 بڑی امدادی تنظیموں کے سربراہان نے مشترکہ بیان میں کہا کہ غذائی بحران سنگین انسانی المیہ اختیار کر چکا ہے۔

فلسطینی تنظیم حماس نے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیل بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے تاکہ فلسطینیوں کو دباؤ میں لایا جا سکے۔

اسرائیل کی جانب سے ڈیڑھ سال سے جاری حملوں میں اب تک 50 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، جبکہ ہزاروں افراد زخمی اور لاپتہ ہیں۔ رہائشی علاقوں، اسکولوں، اسپتالوں اور عبادت گاہوں پر حملوں کے باعث لاکھوں افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button