آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے کربلا کے اراکین موکب کو دوران ملاقات صبر، درگذر اور دینی تعلیمات پر عمل کرنے کی دعوت دی

آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے کربلا معلی کے موکب اور انجمنوں کے اراکین سے دوران ملاقات امام جعفر صادق علیہ السلام کی 4 سفارشات اور سورہ شوری کی آیت کی تفسیر کی روشنی میں صبر، عفو اور تہمت اور ایذاء کے منفی رد عمل سے بچنے کی ضرورت پر تاکید کی۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور امیر المومنین علیہ السلام کو اس سلسلہ میں عملی نمونہ بتایا۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ نے کربلا معلی کے موکب اور انجمنوں کے اراکین سے دوران ملاقات فرمایا: امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے شیعوں کو خط لکھا جس میں مندرجہ ذیل 4 چار نصیحتیں فرمائیں: مدارسہ، رائے، تعاہد اور عمل۔ خوش قسمتی سے فقہاء نے ان احکام کو مستحب قرار دیا ہے ورنہ شیعوں پر ذمہ داری بہت بڑی ہوتی۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے ان 4 احکام کی وضاحت میں فرمایا:
پہلا مدارسہ، یعنی دو یا دو سے زیادہ لوگ ایک دوسرے کے لئے پڑھیں کیونکہ اس وقت کاغذ اور قلم اتنے وسیع پیمانے پر دستیاب نہیں تھے جتنے آج ہیں۔
دوسرے اس پر رائے، رائے کا مطلب ہے اس پر غور کرنا اور حکم اور موضوع کی مناسبت کے لحاظ سے محتاط رہنا نہ کہ سطحی اور سرسری نظر سے گذرنا۔
تیسرا تعاہد یعنی مواد کو بار بار دہرانا اور اس کا جائزہ لینا۔
چوتھے اس پر عمل یعنی مضامین و مفاہیم پر عمل کرنا۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے سورہ شوری آیت 43 "وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ” کو ذکر کرتے ہوئے اس آیت میں دو اہم امور کی وضاحت کی اور ان دو خصوصیات کو حاصل کرنے کے سلسلہ میں سب کی رہنمائی فرمائی۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے مزید تاکید کی کہ اس آیت میں "لمن” تاکید کے لئے ہے۔
پہلا مہم امر صبر ہے جس کی ہر ایک کو ضرورت ہے اور صبر اور مشکلات پر تحمل کے بغیر کامیابی نہیں مل سکتی۔
دوسرا مہم امر جو پہلے مہم امر سے زیادہ اہم ہے وہ "غفر” یعنی معاف کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو منفی چیزوں سے بچنا اور ترک کرنا چاہیے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ نے موکب کے اراکین کو درپیش مسائل جن میں تنقید، تکذیب، بہتان اور دیگر مشکلات کا تذکرہ کیا اور انہیں منفی معاملات میں مشغول ہونے سے باز رہنے کی تاکید کی۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے ان دو خصوصیات کے اعلی نمونہ کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو ان کے چچا ابو لہب نے اس قدر تکلیف پہنچائی کہ قرآن کریم میں اس کی اور اس کی زوجہ کی مذمت میں ایک سورہ نازل ہوا۔ تاہم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے جسمانی اذیتوں، جھوٹ، بہتان، حتی دیوانگی کے الزامات کے باوجود کوئی منفی اقدام نہیں کیا۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے صبر اور درگذر کی دوسری مثال کے طور پر امیر المومنین امام علی علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: خوارج کے ساتھ جنگ کے دوران ایک شخص نے بلند آواز میں امام علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا "قاتله الله كافرا ما افقه” (اللہ کافر کو قتل کرے کہ وہ کتنا بڑا فقیہ ہے۔) جب کچھ صحابہ نے اس کو جواب دینا چاہا تو امیر المومنین علیہ السلام نے انہیں روکا اور اسے کوئی جواب نہیں دیا۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے مرحوم آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دن کسی نے ان سے کہا کہ ایک گروہ نے اپ کی توہین کی ہے، آپ پر بہتان لگایا ہے۔ مرحوم آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی رحمۃ اللہ علیہ جو اس وقت کتاب لکھ رہے تھے، کتاب لکھتے ہوئے جواب دیا: "میرے پاس دو وقت نہیں ہیں کہ میں کتاب بھی لکھوں اور ان لوگوں کا جواب بھی دوں۔ میں منفی چیزوں کا جواب دینے کے بجائے کتاب لکھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ ” آج برسوں گذرنے کے بعد ان افراد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ لیکن مرحوم آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کثیر کتابیں، سماجی خدمات، امام بارگاہیں اور دینی و فلاحی مراکز کا ایک سلسلہ موجود ہے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے آخر میں فرمایا: پوری تاریخ میں کامیاب لوگوں میں ہمیشہ یہ 2 خوبیاں پائی گئی ہیں صبر اور درگذر۔ مجھے امید ہے کہ آپ اراکین موکب اپنے اندر ان دو خوبیوں کو پیدا کریں گے تاکہ آپ اپنے لئے اور اہل بیت علیہم السلام کی خدمت میں کامیابی کے اسباب حاصل کر سکیں۔