خبریںہندوستان

کاغذات نہیں تو پرانی مسجدوں کا کیا ہوگا؟ ’وقف بائی یوزر‘ پر سپریم کورٹ نے مرکز سے مانگی وضاحت

سپریم کورٹ نے بدھ کو وقف ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے ’وقف بائی یوزر‘ املاک کو لے کر سوالات کئے۔ عدالت نے نے کہا کہ وقف بائی یوزر کی املاک کو ڈی نوٹیفائی کرنا ، جو قانون کے تحت قائم ہوچکی ہیں، پریشانیاں پیدا کرے گا۔

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے بدھ کو وقف ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے ’وقف بائی یوزر‘ املاک کو لے کر سوالات کئے۔ عدالت نے نے کہا کہ وقف بائی یوزر کی املاک کو ڈی نوٹیفائی کرنا ، جو قانون کے تحت قائم ہوچکی ہیں، پریشانیاں پیدا کرے گا۔ عدالت عظمی نے اس پر بھی جواب طلب کیا کہ اگر کسی قدیم مسجد کے پاس کاغذات نہیں ہوں گے تو ان کا رجسٹریشن کیسے ہوگا؟

چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی صدارت والی تین ججوں کی بینچ نے مرکزی حکومت سے وقف بائی یوزر شق کو ہٹانے پر وضاحت طلب کی ۔ عدالت نے کہا کہ 14 ویں سے 16 صدی کے درمیان بنی زیادہ تر مسجدوں کے پاس سیل ڈیڈ نہیں ہوں گے، ان کا رجسٹریشن کیسے ہوگا؟

چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ املاک کو ڈی نوٹیفائیڈ کیا گیا تو یہ ایک بڑا ایشو بن سکتا ہے ۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے پوچھا کہ آپ اب بھی میرے سوال کا جواب نہیں دے رہے ہیں، کیا وقف بائی یوزر کو منظوری دی جائے گی یا نہیں؟

سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے جواب دیا کہ اگر املاک رجسٹرڈ ہے تو وقف مانی جائے گی۔ اس پر چیف جسٹس نے تیکھا رخ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو پہلے سے قائم نظام کو پلٹنا ہوگا ۔ اگر آپ وقف بائی یوزر املاک کو ڈی نوٹیفائی کرنے جارہے ہیں تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پریوی کونسل سے لے کر سپریم کورٹ تک کے کئی فیصلے پڑھے ہیں، جن میں وقف بائی یوزر کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ سبھی ایسی املاک فرضی ہیں۔

اس پر ایس جی تشار مہتا نے دلیل دی کہ کئی مسلمان وقف بورڈ کے ذریعہ سے املاک وقف نہیں کرنا چاہتے ، اس لئے وہ ٹرسٹ بناتے ہیں۔ وہیں چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایسی کئی املاک ہیں، جو وقف بائی یوزر کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہیں، لیکن طویل عرصہ سے ان کا مذہبی استعمال ہورہا ہے۔ آپ انہیں کیسے تسلیم نہیں کریں گے؟

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button