خبریںدنیا

کینیڈا: کیوبیک کی سرکاری اسکولوں میں طلبہ پر حجاب اور مذہبی علامات پر پابندی نہیں لگے گی

کینیڈا کے صوبہ کیوبیک کے وزیرِ تعلیم برنارڈ دراینویل نے کیوبیک کی سیکولر تحریک (MLQ) کی جانب سے طلبہ پر مذہبی علامات، جیسے کہ حجاب، کے پہننے پر پابندی کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت جو نیا قانون، بل نمبر 94، متعارف کرانا چاہتی ہے، وہ تعلیمی اداروں میں سیکولرازم کے اصولوں کو مضبوط بنانے کے لیے ہے، لیکن اس میں طلبہ کے مذہبی لباس پر کوئی پابندی شامل نہیں ہے۔

یہ بل فی الحال صرف سرکاری اسکولوں کے تمام ملازمین اور تعلیمی اداروں کے ساتھ کام کرنے والے بیرونی شراکت داروں پر مذہبی علامات پہننے کی پابندی کو وسعت دینے کی تجویز دیتا ہے، جبکہ طلبہ کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ تاہم، اس پر کیوبیک کی سیکولر تحریک (MLQ) نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حجاب اور عبایہ جیسی مذہبی علامات تعلیمی و سیکولر اقدار سے متصادم ہیں۔

پارلیمانی سماعت کے دوران، تحریک کے صدر دانیال باری نے دعویٰ کیا کہ یہ مذہبی علامات خواتین کے خلاف امتیازی پہلو رکھتی ہیں اور "سیاسی اسلام” کے نظریات کو فروغ دیتی ہیں۔ انہوں نے فرانس کی مثال دی، جہاں 2004 سے اسکولوں میں نمایاں مذہبی علامات پر پابندی عائد ہے، اور ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ قانون لاگو ہونے سے پہلے مذہبی علامات پہننے والے ملازمین کو دی جانے والی چھوٹ (گرینڈ فادر کلاز) کو بھی ختم کیا جائے۔

اس کے برعکس، وزیرِ تعلیم برنارڈ دراینویل نے زور دیا کہ حکومت ایک "کیوبیکی ماڈل آف سیکولرازم” پیش کرنا چاہتی ہے، جو انفرادی آزادیوں کے احترام اور تعلیمی اداروں کی غیر جانبداری کے درمیان توازن قائم رکھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت MLQ کے مطالبات ماننے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

ادھر، قومی مزدور یونین (CSN) نے اس بل کو مکمل طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پابندی کے دائرہ کار میں توسیع سے اسکولوں میں عملے کی کمی کی صورتِ حال مزید خراب ہو سکتی ہے، اور اس سے تعلیمی معیار پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے آئینی استثنائی شق کے استعمال کی بھی مخالفت کی، جو مذہبی آزادیوں پر مزید قدغنیں لگانے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔

اگرچہ نیا بل طلبہ پر مذہبی علامات کی پابندی نہیں لگاتا، لیکن اس میں تمام سرکاری و نجی اسکولوں میں نقاب پہننے پر مکمل پابندی شامل ہے، خواہ وہ طلبہ ہوں یا ملازمین۔ یہی پہلو کینیڈا کے کثیرالثقافتی معاشرے میں سیکولرازم کی حدود کے حوالے سے جاری بحث کو مزید ہوا دے رہا ہے۔

اس بل پر پارلیمانی سماعتوں کا آغاز گزشتہ جمعرات کو ہوا، جہاں رائے عامہ واضح طور پر منقسم نظر آئی: کچھ افراد تعلیمی اداروں میں سیکولرازم کو مزید سخت کرنے کے حق میں ہیں، جب کہ دیگر تنوع اور مذہبی آزادی کے تحفظ کے داعی ہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button