14 شوال۔ یوم وفات نابغہ روزگار قطب الدین راوندی رحمۃ اللہ علیہ

چھٹی صدی ہجری کے عظیم شیعہ عالم، محدث، مفسر، متکلّم، فقیہ، فلسفی اور مورخ جناب قطب الدین سعید بن عبد اللہ بن حسین بن ہبۃ اللہ راوندی کاشانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب تفسیر مجمع البیان جناب فضل بن حسن طبرسی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے۔ آپ نے مختلف موضوعات پر 60 سے زیادہ کتابیں تالیف فرمائی ہیں۔ جن میں سب سے مشہور کتاب الخرایج و الجرائح ہے۔ اسی طرح کتاب "منہاج الراعۃ فی شرح نہج البلاغہ” آپ کے عظیم علمی آثار میں شامل ہے۔
جناب قطب الدین راوندی رحمۃ اللہ علیہ ایران کے مشہور شہر کاشان کے نزدیک راوند نامی شہر میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم راوند میں حاصل کی اس کے بعد قم مقدس تشریف لے گئے۔
"قدر گوهر شاه داند یا بداند جوهری” لہذا جناب قطب الدین راوندی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ میں چند علماء اعلام اور نوابغ روزگار کے نظریات پیش ہیں تا کہ دین و مذہب کے اس عظیم گوہر گرانبہا سے آشنائی میں آسانی ہو۔
صاحب الغدیر علامہ امینی رحمۃ اللہ علیہ: قطب راوندی بزرگ اور منتخب علماء شیعہ میں سے ہیں اور ان کا شمار شیعہ مسلک کے فقہ و حدیث کے اساتذہ، نوابغ اور رجال علم و ادب میں ہوتا ہے۔ ان کی کثیر تالیفات میں کسی بھی طرح کا کوئی عیب نہیں پایا جاتا ہے اور ان کے فضائل، تلاش و کوشش، دینی خدمات، نیک اعمال اور قیمتی تصنیفات میں کسی بھی طرح کا شائبہ نہیں پایا جاتا ہے۔
صاحب روضات الجنات رحمۃ اللہ علیہ: وہ فقیہ، ممتاز و معتبر شخصیت کے مالک اور متعدد تصنیفات کے مولف ہیں۔
میرزا عبد اللہ افندی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ: شیخ، امام فقیہ، قطب الدین راوندی فاضل، عالم، متبحر، فقیہ، محدث، متکلم، احادیث و روایات کے عالم اور شاعر تھے۔
صاحب مفاتیح الجنان شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ: وہ عالم، متبحر، فقیہ، محدث، مفسر، محقق ۔۔۔ اور بزرگ ترین شیعہ محدثین میں سے ہیں۔
نامور اہل سنت عالم جناب ابن حجر عسقلانی: وہ شیعہ مذہب اور تمام علوم میں عالم و فاضل تھے اور تمام علوم میں صاحب تالیف تھے۔
جناب قطب الدین راوندی رحمۃ اللہ علیہ نے 14 شوال المکرم 573 ہجری کو قم مقدسہ میں وفات پائی اور کریمہ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک کے صحن امام علی رضا علیہ السلام میں دفن ہوئے۔ آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی قبر مبارک پر ایک بڑا سنگ قبر نصب کرایا۔
آیۃ اللہ اراکی رحمۃ اللہ علیہ نے آخوند محمد جلالی کے واسطہ سے اپنے استاد (شیخ محمد حسن رحمۃ اللہ علیہ) سے نقل کیا ہے کہ مشروطہ تحریک کے زمانہ میں صحن کی تعمیر کی وجہ سے قطب راوندی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر میں ایک شگاف پیدا ہو گیا اور میں نے نزدیک سے ان کے دونوں گھٹنے سالم دیکھے۔ آیۃ اللہ اراکی کا بیان ہے: میں نے پہلے بھی اس داستان کو سنا تھا اور یہ بات قم کی عوام میں متواتر تھی کہ قطب راوندی رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ تازہ ہے۔