
جاپان کے ساحل کے قریب ایک پُراسرار 90 فٹ بلند زیرِ آب پتھریلا ہرم دریافت ہوا، جس نے ساری دنیا میں حیرت، بحث اور تجسس پیدا کردیا۔ اس قدیم ڈھانچے کی موجودگی موجودہ تاریخی معلومات کو چیلنج کر سکتی ہے اور انسانی تہذیب کی کہانی کو نئے سرے سے لکھنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
یہ یادگار جسے آج ’یوناگونی مونیومنٹ‘ کہا جاتا ہے، پہلی مرتبہ 1986 میں دریافت ہوئی تھی۔ یہ جاپان کے ریوکیو جزائر کے ساحل سے تقریباً 82 فٹ گہرے پانی میں واقع ہے۔ اس کی لمبائی تقریباً 50 میٹر اور چوڑائی 20 میٹر ہے جبکہ یہ اندازاً 90 فٹ بلند ہے۔
اس کی سیڑھیوں کی مانند واضح زاویوں والی ساخت نے ماہرین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے، جو اس کے انسانی تخلیق ہونے کے امکانات پر غور کر رہے ہیں۔
یہ مقام ’جاپان کی اٹلانٹس‘ کے نام سے بھی مشہور ہے، کچھ سائنس دان اسے قدرتی چٹانی ساخت قرار دیتے ہیں جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ ایسی منظم ہندسی اشکال فطرت کی تخلیق نہیں ہو سکتیں
پتھر کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ یہ یادگار 10 ہزار سال سے بھی قدیم ہے۔ اگر یہ واقعی انسانوں کی تخلیق ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ اسے اُس وقت تعمیر کیا گیا تھا جب یہ علاقہ سمندر برد نہیں ہوا تھا، یعنی موجودہ سمندر برد ہونے سے تقریباً 12 ہزار سال قبل۔
یہ ٹائم لائن اسے اہرام مصر اور اسٹون ہینج جیسے تاریخی مقامات سے بھی کئی ہزار سال قدیم بناتی ہے۔
عام طور پر ماہرین کا ماننا ہے کہ اس نوعیت کے بڑے ڈھانچے اس وقت تعمیر ہونا شروع ہوئے جب انسان نے زراعت کو اپنایا، اور یہ وقت تقریباً 12 ہزار سال قبل کا ہے۔
تاہم اگر یوناگونی جیسا قدموں کی شکل والا عظیم الشان ہرم اس سے پہلے وجود رکھتا تھا تو یہ ہماری تاریخ نویسی کو مکمل طور پر بدلنے کا متقاضی ہوگا اور ممکنہ طور پر ایک گمشدہ تہذیب، جیسا کہ افسانوی ’اٹلانٹس‘، کے وجود کی طرف اشارہ کرے گا