
کانپور: رام نومی کے جلوس کے دوران بدھ کے روز یوپی کے شہر کانپور میں افواہوں کے سہارے ایک ہجوم نے مسلمانوں کی دکانوں کو نشانہ بنایا، املاک کو نقصان پہنچایا اور سامان لوٹ لیا۔ اطلاعات کے مطابق، یہ ہنگامہ اس افواہ کے بعد شروع ہوا کہ جلوس پر مبینہ طور پر پتھراؤ کیا گیا تھا، تاہم پولیس کی تحقیقات میں یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا۔
ڈپٹی پولیس کمشنر شروان کمار سنگھ نے میڈیا کو بتایا کہ جلوس پر پتھراؤ کے کوئی شواہد نہیں ملے اور نہ ہی کوئی زخمی پایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم افواہوں کی حقیقت جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ کہاں سے اور کیسے پھیلیں۔‘‘ اس کے باوجود، ہجوم نے شہر کے کئی علاقوں میں دکانوں پر حملے کیے، جن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں بھگوا جھنڈے اٹھائے افراد کو توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

پولیس نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈران، آر ایس ایس کارکنان اور دیگر کے خلاف تقریباً 200؍ افراد پر فساد پھیلانے اور سازش رچنے کا مقدمہ درج کیا ہے، مگر تاحال کسی بڑی گرفتاری کی اطلاع نہیں ملی۔ یہ صورتحال ہندوستانی انتظامیہ کے دوہرے معیار کی واضح مثال ہے۔
حالیہ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی جھوٹے یا مشتبہ الزام میں ملوث پایا جائے، تو نہ صرف فوری گرفتاری کی جاتی ہے بلکہ بغیر کسی عدالتی کارروائی کے اس کے گھر کو بلڈوز کر دیا جاتا ہے۔ لیکن جب ہندو شدت پسندوں کی طرف سے کھلے عام تشدد، لوٹ مار اور پولیس پر حملے جیسے جرائم ہوتے ہیں تو صرف "زبانی وارننگ” دی جاتی ہے یا علامتی ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔
رام نومی جلوس کے دوران دیگر علاقوں جیسے راوت پور، چاکیری، فضل گنج، مولگنج اور پانکی میں بھی کشیدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ پولیس نے ان علاقوں سے 45؍ افراد کو نامزد اور 140؍ نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ ایک کیس میں، پولیس کے منع کرنے پر جلوس کے منتظمین نے سب انسپکٹر کو گالیاں دیں اور ایک ساتھی کو پولیس حراست سے چھڑا لے گئے، مگر پھر بھی صرف معمولی قانونی کارروائی ہوئی۔
اس سب سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ کس قدر امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔ امن و امان کے قیام کی ذمہ دار حکومت خود فسادیوں کو تحفظ دے رہی ہے جبکہ مظلوموں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔