
ہالینڈ میں نسلی امتیاز اور تعصب کے خلاف قومی رابطہ کار رابن بالدوسنگھ نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اب ایک منظم اور معمول بن چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں ہالینڈ میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔”
یہ بیان انہوں نے یونیورسٹی آف اوتریخت اور ریگیوپلان ریسرچ سینٹر کی اُس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے دیا جو ان کی درخواست پر تیار کی گئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق، ہالینڈ میں مسلمان نہ صرف روزمرہ زندگی میں بلکہ حکومتی اداروں، تعلیمی نظام، روزگار، بینکاری، صحت کے شعبے اور سیکیورٹی اداروں میں بھی امتیاز کا سامنا کر رہے ہیں۔
رابن بالدوسنگھ کے مطابق، امتیاز صرف انفرادی سطح پر نہیں بلکہ ادارہ جاتی شکل میں بھی ظاہر ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "یہ رویہ معاشرے کے ہر طبقے میں عام ہو چکا ہے، جو کہ نہایت تشویشناک ہے۔”
انہوں نے خاص طور پر مسلمان خواتین، بالخصوص باحجاب خواتین کو درپیش مسائل کی نشاندہی کی۔ ان کے مطابق، ایسی خواتین کو تعلیم، روزگار اور دیگر شعبوں میں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی خاتون حجاب پہنتی ہے تو اسے پولیس یا کئی دیگر سرکاری محکموں میں ملازمت کی اجازت نہیں دی جاتی، جو سراسر امتیازی عمل ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دسمبر 2023 سے دسمبر 2024 تک کے دوران کیے گئے انٹرویوز اور سابقہ تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک اب ایک ’نمطی‘ حقیقت ہے، نہ کہ کوئی اتفاقی واقعہ۔
بالدوسنگھ نے انتباہ دیا کہ آنے والے دن مسلمانوں، خصوصاً خواتین کے لیے مزید مشکل ہو سکتے ہیں، اور اس پر حکومت کو فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔