
مرکزی حکومت کی جانب سے منظور کردہ وقف ترمیمی قانون 2024 اب قانونی شکل اختیار کر چکا ہے اور 8 اپریل سے ملک بھر میں نافذ بھی ہو چکا ہے۔ یہ قانون صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی منظوری کے بعد نافذ العمل ہوا، جس کے لیے مرکزی حکومت نے باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ حالانکہ قانون کے نافذ ہونے کے فوراً بعد ہی اس کے خلاف مختلف حلقوں کی جانب سے قانونی محاذ آرائی کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔
اس قانون کو چیلنج کرتے ہوئے ملک کی معروف مذہبی تنظیم جمعیت علماء ہند نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے، جس پر 16 اپریل 2025 کو سماعت مقرر کی گئی ہے۔ عرضی مولانا ارشد مدنی کی جانب سے داخل کی گئی ہے اور اس کی پیروی سینئر وکیل کپل سبل کر رہے ہیں۔ پیر 7 اپریل کو کپل سبل نے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ سے فوری سماعت کی اپیل کی تھی، جس پر سی جے آئی نے جلد سماعت کی یقین دہانی کرائی اور اب سپریم کورٹ رجسٹری کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی کو اطلاع دی گئی ہے کہ معاملہ 16 اپریل کو زیر سماعت آئے گا۔
مولانا ارشد مدنی نے عدالتی تاریخ مقرر ہونے کو ایک حوصلہ افزا پیش رفت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے قانون کی متعدد دفعات نہ صرف آئین ہند سے متصادم ہیں بلکہ یہ شہریوں کے بنیادی و مذہبی حقوق کی خلاف ورزی بھی کرتی ہیں۔ ان کے مطابق اس قانون کے نفاذ سے ملک کے مسلمانوں میں بے چینی، اضطراب اور غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے، کیونکہ اس قانون کے تحت وقف املاک میں مداخلت کا راستہ کھلتا نظر آ رہا ہے۔

مولانا مدنی نے واضح کیا کہ یہ قانون مسلمانوں کی فلاح یا شفافیت کے مقصد سے نہیں بنایا گیا بلکہ اس کا اصل مقصد وقف جائیدادوں پر قبضہ حاصل کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ترمیمی قانون کی کچھ دفعات سے حکومت کی نیت پر سوال اٹھتا ہے۔ اس قانون سے فرقہ پرست عناصر کو فائدہ پہنچ سکتا ہے، جو پہلے ہی ملک میں مساجد، درگاہوں اور قبرستانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اگر یہ قانون نافذ رہتا ہے تو وہ اپنے مذموم عزائم کو قانونی جواز دے سکیں گے۔
عرضی میں جمعیت علماء ہند نے سپریم کورٹ سے وقف ترمیمی قانون کو کالعدم قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس پر عبوری حکم (اسٹے آرڈر) جاری کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقف ٹریبونل کے اختیارات ختم کرنا اور پیچیدہ نظام نافذ کرنا آئین کے آرٹیکل 14، 15، 16، 25، 26 اور 300اے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
واضح رہے کہ صرف جمعیت علماء ہند ہی نہیں بلکہ مختلف سیاسی و سماجی تنظیمیں اور مسلم رہنما بھی اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا چکے ہیں۔ اب تک 10 سے زائد عرضیاں عدالت عظمیٰ میں داخل ہو چکی ہیں۔ مرکزی حکومت نے بھی اس قانونی جنگ کی تیاری کرتے ہوئے عدالت میں کیویٹ (Caveat) داخل کی ہے تاکہ فیصلہ ان کی سنے بغیر نہ ہو۔
وقف ترمیمی قانون کے خلاف یہ قانونی لڑائی ملک کے مستقبل میں مذہبی آزادی، اقلیتی حقوق اور وقف املاک کے تحفظ کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ اب تمام نگاہیں 16 اپریل کو ہونے والی سپریم کورٹ کی سماعت پر مرکوز ہیں۔