شیعہ عالم دین مولانا بلال حیدر کی جبری گمشدگی: ریاستی اداروں کی خاموشی پر سوالیہ نشان

شیعہ عالم دین مولانا بلال حیدر، جو حوزہ علمیہ قم المقدسہ میں زیرِ تعلیم تھے، پاکستان واپسی پر رمضان بارڈر سے جبری طور پر لاپتہ ہو گئے۔ یہ واقعہ نہ صرف ان کے اہل خانہ بلکہ پورے ملک کے باشعور طبقے کے لیے گہری تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ یہ محض ایک فرد کی گمشدگی نہیں بلکہ عقیدہ، فکر اور مذہبی آزادی پر کھلا حملہ ہے۔
پاکستان میں اہلِ تشیع کی جبری گمشدگیاں ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہیں، اور حکومت و ریاستی اداروں کی خاموشی اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ مولانا بلال حیدر کا لاپتہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ملک میں مذہبی اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔
حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ مولانا بلال حیدر کو فوری طور پر بازیاب کرائے اور اس واقعے کی مکمل تحقیقات کرائے۔ اگر ریاست ان مظالم کو روکنے میں ناکام رہی تو یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ آئین و قانون کی بالادستی اور تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔