
کرناٹک ہائی کورٹ نے یونیفارم سول کوڈ (UCC) کی سفارش کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے خواتین کو ذات اور مذہب سے قطع نظر مساوات کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ یہ بات عدالت نے ایک حالیہ فیصلے میں کہی جو 6 اپریل 2025 کو منظرعام پر آئی ہے۔ اس فیصلے کا تعلق ایک جائیداد کے تنازعہ سے تھا جس میں عدالت نے دیکھا کہ ہندو قانون کے تحت بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر حقوق حاصل ہیں، لیکن مسلم پرسنل لا میں ایسا نہیں ہے۔ اس فرق کو دیکھتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ملک کو ایک ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جو تمام شہریوں، خاص طور پر خواتین کے لیے یکساں حقوق کو یقینی بنائے۔
عدالت کے جج جسٹس ہنچاٹے سنجیو کمار نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ہندوستان میں خواتین سب برابر ہیں، لیکن مذہبی پرسنل قوانین کی وجہ سے ان کے درمیان فرق پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندو قانون کے تحت بیٹی کو بیٹے کے برابر وراثت میں حصہ ملتا ہے، لیکن اسلامی قانون میں بیٹیوں کے ساتھ ایسی برابری نہیں دیکھی جاتی۔ مثال کے طور پر، اس کیس میں ایک مسلم خاتون کی جائیداد کے تنازعہ پر بحث ہوئی، جہاں اس کی بہن کو بھائیوں کے مقابلے میں کم حصہ ملا۔ عدالت نے اسے خواتین کے درمیان امتیازی سلوک کی ایک مثال قرار دیا اور کہا کہ یونیفارم سول کوڈ اس طرح کے فرق کو ختم کر سکتا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 44 کا حوالہ دیا، جو ریاست سے کہتا ہے کہ وہ شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ جج نے کہا کہ اس قانون کے نفاذ سے نہ صرف خواتین کو انصاف ملے گا بلکہ آئین کے دیباچے میں درج مساوات، آزادی، انصاف اور بھائی چارے کے مقاصد بھی پورے ہوں گے۔ انہوں نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ اس سلسلے میں سنجیدہ کوششیں کریں اور قانون سازی کے ذریعے UCC کو نافذ کریں۔اس فیصلے میں عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ گوا اور اتراکھنڈ جیسے کچھ ریاستیں پہلے ہی UCC نافذ کر چکی ہیں، اور دیگر ریاستوں کو بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ عدالت نے اپنے فیصلے کی ایک کاپی مرکزی اور کرناٹک حکومت کے پرنسپل لاء سیکریٹری کو بھیجنے کا حکم دیا تاکہ اس پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔
یہ فیصلہ ایک مسلم خاندان کے جائیداد کے تنازعہ کے دوران سامنے آیا، جہاں عبدالبشیر خان کی موت کے بعد ان کی بیوہ، دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے درمیان جائیداد کی تقسیم پر اختلاف تھا۔ نچلی عدالت نے بیٹی شہناز بیگم کو تین جائیدادوں میں حصہ دیا تھا، جسے ہائی کورٹ نے برقرار رکھا۔ بیٹوں نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی، لیکن عدالت نے ان کی اپیل مسترد کر دی۔ اس کے ساتھ ہی شہناز بیگم کی طرف سے زیادہ حصہ مانگنے کی درخواست بھی مسترد کی گئی۔اس فیصلے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ UCC کو خواتین کے حقوق اور مساوات کے لیے ضروری سمجھتی ہے۔ عدالت کا خیال ہے کہ اس سے نہ صرف خواتین کو انصاف ملے گا بلکہ ملک میں مذہبی اور ذاتی قوانین کی وجہ سے پیدا ہونے والے فرق بھی ختم ہوں گے۔ یہ فیصلہ ہندوستان میں UCC کے بارے میں جاری بحث کو مزید تقویت دے سکتا ہے، جو ایک عرصے سے سیاسی اور سماجی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔