8 شوال، یوم انہدام جنت البقیع

8 شوال سن 1344 ہجری کو آل سعود نے مدینہ منورہ کے تاریخی قبرستان "بقیع” کو منہدم کر دیا ، روایات کے مطابق وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی اکلوتی یادگار بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مزار مقدس ہے۔ اسکے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے سبط اکبر کریم اہل بیت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ، آدم آل محمد امام زین العابدین علیہ السلام ، امام محمد باقر علیہ السلام کہ جنکو خود حضور نے اپنے جلیل القدر صحابی یعنی قبر امام حسین علیہ السلام کے پہلے زائر جناب جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سلام کہلایا تھا اور قرآن ناطق امام جعفر صادق علیہ السلام کے مزارات ہیں جس پر روضے تعمیر تھے۔
اس کے علاوہ حضور کے فرزند جناب ابراہیم علیہ السلام، چچا جناب عباس ، پھوپھیوں، ازواج و اصحاب ، بنی ہاشم اور عالم اسلام کی عظیم شخصیات کی قبریں ہیں ۔ نیز عصر نبوی سے آج تک مدینہ اور اطراف مدینہ میں جو بھی مسلمان اس دنیا سے کوچ کرتا ہے اسے بقیع میں دفن کیا جاتا ہے۔ یہاں وہ بیت الحزن بھی ہے جہاں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے بابا کی شہادت کے بعد عزاداری فرماتی تھیں ۔

8 شوال سن 1344 ہجری سے قبل جنت البقیع میں مدفون چار ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کی قبریں ایک ضریح میں تھیں اور اس پر گنبد و بارگاہ موجود تھے، زائرین زیارت کے لئے وہاں جاتے تھے، اسی طرح دیگر قبروں پر بھی حسب حیثیت و شان گنبد موجود تھے۔
نجدیوں نے اپنے باطل افکار و اہداف کے پیش نظر جنت البقیع کو ویران کر دیا۔ نہ صرف جنت البقیع بلکہ پورے حجاز میں اسلامی آثار کو مسمار کر دیا چاہے مکہ مکرمہ میں حجون ہو، شہداء احد کے مزارات ہوں، ابواء میں صدف رسالت حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا کی قبر ہو یا جدہ میں مادر انسانیت جناب حوا سلام اللہ علیہا کا مزار ہو ۔ المختصر تمام روضوں کو منہدم کر دیا۔

102 برس سے یہ روضے منہدم ہیں، جبکہ پورا مدینہ جگمگا رہا ہے لیکن جنت البقیع ویران ہے۔
جنت البقیع کی ویرانی عالم اسلام کے غیرت پر سوالیہ نشان ہے۔
جنت البقیع کی ویرانی عالم اسلام سے سوالی ہے کہ تم کیسے موحد ہو کہ علامات توحید ہی کو منہدم ہو گئی اور تم خاموش ہو؟
تم کیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کا کلمہ پڑھنے والے ہو کہ ان کے دل کے ٹکڑوں کے مزار ویران ہیں اور تم دیکھ رہے ہو؟