ایشیاءخبریںدنیاہندوستان

وقف ترمیمی بل کے خلاف ملک گیر احتجاج، سپریم کورٹ میں چیلنج، کئی ریاستوں میں کشیدگی

نئی دہلی: وقف ترمیمی بل کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاجی مظاہرے سامنے آئے ہیں، جن میں مسلمانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور بل کو اقلیتوں کے خلاف سازش قرار دیا۔ مختلف ریاستوں میں مظاہرین نے بل کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے حکومت سے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس بل کو اب سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا ہے، جبکہ بعض ریاستی وزراء نے اسے لاگو نہ ہونے دینے کا اعلان کیا ہے۔

جمعہ کے روز احمد آباد، کولکاتا، رانچی، اور جمئی سمیت کئی شہروں میں زبردست مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ احمد آباد میں جمعہ کی نماز کے بعد بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور وقف بل کی مخالفت میں نعرے بازی کی۔ اس دوران حالات کشیدہ ہوئے اور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 50 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا۔ کولکاتا میں بھی احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں مظاہرین نے ‘وقف بل واپس لو’ کے نعرے لگائے۔ رانچی میں ایکرا مسجد کے باہر نماز جمعہ کے بعد لوگوں نے بینرز اٹھا کر بل کی مخالفت کی اور کہا کہ اس میں کی گئی ترامیم اقلیتی حقوق پر حملہ ہیں۔

بہار کے جمئی ضلع میں بھی سینکڑوں مظاہرین نے رضا نگر گوثیہ مسجد کے باہر احتجاج کیا اور وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرین نے آئندہ انتخابات میں حکومت کو سبق سکھانے کی بات کہی۔

ادھر، اترپردیش میں پولیس ہائی الرٹ پر ہے۔ لکھنؤ، سنبھل، بہرائچ، مرادآباد، مظفرنگر، اور سہارنپور جیسے حساس اضلاع میں پولیس نے اضافی نفری تعینات کر دی ہے۔ پرانے لکھنؤ کے 61 حساس مقامات کو ہاٹ اسپاٹ قرار دے کر وہاں ڈرونز اور سی سی ٹی وی کے ذریعے سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔ پولیس نے خبردار کیا ہے کہ افواہیں پھیلانے یا قانون کو ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔

مہاراشٹر کے ناگپور میں بھی پولیس نے الرٹ جاری کر دیا ہے اور عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ سوشل میڈیا پر پرتشدد مواد شیئر نہ کریں۔ خلاف ورزی کی صورت میں سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

دریں اثنا، وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوچکا ہے اور اب یہ بل صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی منظوری کے منتظر ہے۔ اعلیٰ حکومتی ذرائع کے مطابق، آئندہ ہفتے کے اوائل میں صدر کی منظوری کے بعد یہ قانون نافذ ہو سکتا ہے اور اس کے رولز بھی جلد نوٹیفائی کیے جائیں گے۔

اس بل کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا ہے۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید نے بل کو اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں عرضی دائر کی ہے۔ ان کے بعد آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) کے صدر اسد الدین اویسی نے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

جھارکھنڈ کے وزیر صحت ڈاکٹر عرفان انصاری نے بل کو سازش قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اسے جھارکھنڈ اور بہار میں لاگو نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے مرکزی حکومت پر اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور نفرت کی سیاست کا الزام عائد کیا۔

ملک بھر میں بڑھتے احتجاج اور سیاسی مخالفت کے پیش نظر، وقف ترمیمی بل ایک حساس اور متنازع مسئلہ بن چکا ہے جس پر عدلیہ، حکومت اور عوام کے درمیان کشمکش جاری ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button