ایشیاءخبریںدنیاہندوستان

ہندوستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی: مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور ہراسانی میں اضافہ

ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن، مساجد پر حملے اور گھروں کی مسماری جیسے واقعات مسلمانوں کی مسلسل پسماندگی اور ان کے حقوق کی پامالی کی واضح علامت بن چکے ہیں۔

تفصیلات درج ذیل رپورٹ میں:

دی وائر، ایکسپریس ٹریبیون، کاروان اور مسلم مرر میں شائع ہونے والی متعدد رپورٹس کے مطابق، ہندوستان میں مسلم برادری کو امتیازی سلوک، ہراسانی اور سرکاری کارروائیوں کا سامنا ہے، جس سے ان کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کے زوال پر شدید خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔

اتر پردیش میں پولیس نے مسلمانوں کو عید کے موقع پر سڑکوں پر نماز پڑھنے سے روکنے کے لیے سخت وارننگ جاری کی ہے۔ میرٹھ پولیس چیف نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس حکم کی خلاف ورزی کی گئی تو قانونی کارروائی کے علاوہ پاسپورٹ بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ قانونی ماہرین نے اس اقدام کو پولیس کے اختیارات سے تجاوز قرار دیا ہے، کیونکہ سزا دینے کا اختیار عدالتوں کے پاس ہونا چاہیے، نہ کہ پولیس کے پاس۔

یہی سختیاں ریاست کے دیگر علاقوں میں بھی نافذ کی جا رہی ہیں۔ سنبھل میں پولیس نے یہاں تک کہ نجی گھروں کی چھتوں پر بھی نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ اقدامات مسلمانوں کے خلاف نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں، جس کے ذریعے انہیں عوامی نظم و ضبط کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور ہندو برادری کے ذہنوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مہاراشٹر کے بید ضلع میں ایک مسجد کے اندر دھماکے سے عمارت کو شدید نقصان پہنچا، جس کے خلاف مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا۔ اس واقعے کے بعد دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ دھماکے سے قبل علاقے میں ایک فرقہ وارانہ جلوس نکالا گیا تھا، جس میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیے گئے اور مسجد کی تعمیر پر اعتراضات اٹھائے گئے۔

ہریانہ کے گروگرام میں انتظامیہ نے مغربی بنگال سے آئے تقریباً 300 مہاجر مزدوروں کے گھروں کو مسمار کر دیا، اور متاثرین کے مطابق انہیں اس کارروائی سے پہلے کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ رکشہ چلانے اور فیکٹریوں میں مزدوری کرنے والے ان محنت کشوں پر الزام لگایا گیا کہ وہ "بنگلہ دیشی” ہیں، صرف اس بنیاد پر کہ وہ بنگالی زبان بولتے ہیں۔

یہ انہدامی کارروائی شدید عوامی غصے کا باعث بنی، اور متاثرین نے الزام عائد کیا کہ یہ غیر قانونی تجاوزات کا معاملہ نہیں بلکہ بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ایک سازش تھی۔

ممبئی میں گڑی پڈوا اور عید الفطر کے موقع پر تقریباً 14,000 پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام عوام کے تحفظ اور پرامن ماحول کو یقینی بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے، لیکن ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس بڑے پیمانے پر سیکیورٹی تعیناتی کے نتیجے میں مسلمانوں کے خلاف پروفائلنگ اور ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

یہ واقعات اس تشویشناک رجحان کو ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستانی ریاست منظم انداز میں مسلمانوں کو پسماندہ اور مجرم بنانے پر کام کر رہی ہے، جو کہ نوآبادیاتی دور کی امتیازی پالیسیوں کی یاد دلاتی ہے۔ تجزیہ کار خبردار کر رہے ہیں کہ ہندوستان میں "ہندوتوا نظریے” کو فروغ دیا جا رہا ہے، جس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دراڑیں مزید گہری ہو رہی ہیں، اور ریاستی ادارے خود اس تقسیم کو ہوا دے رہے ہیں۔

مسلمانوں کو درپیش ان چیلنجز کے پیش نظر، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیکولرازم کے اصولوں پر کاربند رہے اور تمام شہریوں کے مذہبی اور بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button