اسلامی دنیاخبریںشیعہ مرجعیت

اماکنِ مقدسہ میں  شہروں کی وسعت اور ترقی کے ساتھ ساتھ تخییر کا حکم بھی وسیع ہوتا جائے گا: آیت اللہ العظمیٰ شیرازی

آیت اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی کا روزانہ علمی نشست، بدھ کی شب 25 رمضان المبارک 1446 ہجری کو منعقد ہوئی۔ اس نشست میں، حسبِ سابق، انہوں نے حاضرین کے فقہی سوالات کے جوابات دیے۔

 آیت اللہ العظمیٰ شیرازی نے چار مقدس شہروں میں تخییر (قصر اور اتمام نماز کے اختیار) کے مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ روایات میں مکہ کے لیے "حرم اللہ” کا ذکر آیا ہے، جس کا مطلب صرف مسجد الحرام نہیں بلکہ پوری مکہ مکرمہ ہے۔ اسی طرح مدینہ "حرم رسول اللہ” ہے، یعنی پورا شہر مدینہ، نہ کہ صرف مسجد نبوی یا روضہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ

انہوں نے مزید فرمایا کہ کوفہ "حرم امیر المومنین” ہے، یعنی پورا شہر کوفہ، نہ کہ صرف مسجد کوفہ۔ اور کربلا "حرم امام حسین علیہ السلام” ہے، یعنی پورا شہر کربلا، نہ کہ صرف روضہ مبارک۔

آیت اللہ العظمیٰ شیرازی نے تاکید کی کہ ان چار مقدس شہروں کی وسعت اور ترقی کے ساتھ ساتھ تخییر کا حکم بھی وسیع ہوتا جائے گا۔ چاہے کوئی ان شہروں میں کسی ہوٹل میں ٹھہرا ہو، پھر بھی اسے نماز میں قصر اور اتمام کا اختیار حاصل ہوگا۔

آیت اللہ العظمیٰ شیرازی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  کی حدیث "إِنَّا مَعَاشِرَ اَلْأَنْبِيَاءِ أُمِرْنَا أَنْ نُكَلِّمَ اَلنَّاسَ عَلَى قَدْرِ عُقُولِهِمْ” (ہم گروہِ انبیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کریں) کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ حقیقت میں حکمت کا درس ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ بعض افراد اشاروں اور کنایوں سے بات کو سمجھ جاتے ہیں، جبکہ بعض کو صراحت کے ساتھ سمجھانا ضروری ہوتا ہے۔ انبیاء کو یہی حکمت دی گئی کہ وہ جان سکیں کہ کس فرد سے کس انداز میں گفتگو کرنی چاہیے۔

انہوں نے مزید فرمایا کہ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص سے اس کی فہم کے مطابق بات کی جائے، مثلاً بچوں سے الگ انداز میں، عالم سے مختلف طریقے سے، اور جاہل سے کسی اور انداز میں گفتگو کی جائے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی، بچوں اور دیگر افراد سے ان کے فہم اور حالات کے مطابق گفتگو کرے تو یہ حکمت کا تقاضا ہوگا، لیکن اگر کسی بچے سے اسی انداز میں بات کی جائے جیسے کسی سمجھدار اور بالغ شخص سے کی جاتی ہے، تو یہ خلافِ حکمت ہوگا۔

آیت اللہ العظمیٰ شیرازی نے بیان فرمایا کہ اسی حکمت کے تحت ائمہ معصومین علیہم السلام سے جب مختلف افراد ایک ہی سوال کرتے تھے تو وہ ہر شخص کے فہم، علم اور حالت کے مطابق مختلف جوابات دیا کرتے تھے۔ یہ کوئی تضاد نہیں بلکہ حکمتِ الٰہی کا مظہر ہے، جو روایات میں بارہا بیان کیا گیا ہے۔

یہ علمی نشست تسلسل کے ساتھ جاری ہے، جس میں مختلف فقہی و معرفتی مسائل پر گفتگو کی جاتی ہے اور حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

Back to top button