
26 مارچ کو مہاراشٹر کے رہوری میں اس وقت فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی، جب ایک ہجوم نے حضرت احمد چشتی درگاہ، جسے بواسند بابا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، پر دھاوا بول کر اس کا روایتی سبز پرچم اتاردیا اور اس کی جگہ بھگوا پرچم لہرا دیا۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب نامعلوم شر پسندوں نے چھترپتی شیواجی مہاراج کی مورتی کی بے حرمتی کی، جس کے بعد پورے شہر میں احتجاج شروع ہو گیا۔
صدیوں پرانی یہ درگاہ، جو راہوری گاؤں میں واقع ہے، ہمیشہ سے مشترکہ عقیدت اور احترام کا مرکز رہی ہے، جہاں مسلمان اور ہندو دونوں دعا اور روحانی عبادت کیلئے آتے ہیں، جو اس خطے کی مذہبی ہم آہنگی کے روایتی مظہر کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم، گذشتہ کچھ مہینوں سے ہندوتوا گروپوں نے دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہے کہ یہ عمارت دراصل ایک ہندو مندر تھی اور اسے بحال کیا جانا چاہیے۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ ایسے دعووں کے ساتھ علاقے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔
گواہوں کے مطابق، بدھ کو جب ہجوم درگاہ پہنچا، تو انہوں نے زبردستی داخل ہو کر روایتی پرچم اتار دیا اور اس کی جگہ بھگوا پرچم لہرا دیا۔ اگرچہ پولیس موقع پر موجود تھی، لیکن اس نے حملہ روکنےکیلئے کوئی کارروائی نہیں کی۔واضح رہے کہ علاقے میں تناؤ اس دن صبح ہی شروع ہو گیا تھا، جب سوشل میڈیا پر خبریں گردش کرنے لگیں کہ کسی نامعلوم شخص نے بواسند بابا تعلیم کے قریب شیواجی مہاراج کی مورتی پر سیاہ رنگ پھینک دیا ہے۔ خبر پھیلتے ہی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے اور احتجاج شدت اختیار کر گیا۔ دائیں بازو کے لیڈرساگر سیٹیا بیگ احتجاج کی قیادت کر رہے تھے، جبکہ سابق ایم ایل اے شیواجی راؤ کارڈیل سمیت دیگر سیاسی شخصیات بھی موقع پر پہنچیں اور فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔
درگاہ پر حملے کے بعد، ہندوتوا گروپوں نے 27؍ مارچ، جمعرات کو درگاہ کے احاطے میں ’’مہا آرتی‘‘ کا اعلان کیا ہے۔ یہ پروگرام سکل ہندو سماج، راہوری تعلقہ کے بینر تلے منعقد کیا جا رہا ہے، جس کی قیادت راشٹریہ شری رام سنگھ کے قومی صدر ساگر بیگ کریں گے۔ پروگرام کے نوٹس میں درگاہ کو ’’شری بواسندھ دیو مہاراج مندر‘‘کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے، جس سے مقامی مسلمانوں میں خدشات بڑھ گئے ہیں کہ یہ درگاہ کی شناخت کو تبدیل کرنے کی ایک کوشش ہے۔ تاہم اعلان میں غیر ذمہ دارانہ اقدامات سے بچنے اور درگاہ کا تقدس برقرار رکھنے جیسی تنبیہ بھی کی گئی ہے۔
حکام نے علاقے میں اضافی حفاظتی دستے تعینات کر دئے ہیں، لیکن ہجوم کے حملے یا پتھراؤ کے واقعات سے متعلق اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ یہ مہاراشٹر میں مسلم مذہبی مقامات پر ہونے والے سلسلہ وار حملوں میں تازہ ترین واقعہ ہے، جس سے خطے میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ تقسیم کےتعلق سے تشویش بڑھ گئی ہے۔