اسلامی دنیاافغانستانخبریںدنیا

افغانستان:یونیسیف کا طالبان سے لڑکیوں کی تعلیم پرلگی پابندی فوری ہٹانے کا مطالبہ

افغانستان میں نیا تعلیمی سال شروع ہو چکا ہے، لیکن تقریباً 22؍لاکھ لڑکیاں اسکول جانے سے محروم ہیں۔ طالبان نے 2021ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد اسکول جانے سے روک دیا ہے، جس کی وجہ وہ اپنے تشریح کردہ شرعی قوانین بتاتے ہیں۔ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایسی پابندی نافذ ہے۔ یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہاکہ ’’تین سال سے زیادہ عرصے سے افغانستان میں لڑکیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ اگر ان ہونہار اور ذہین لڑکیوں کو تعلیم جاری رکھنے سے روکا جاتا رہا، تو اس کے اثرات آنے والی نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔‘‘

یونیسیف کے مطابق، صرف اس سال مزید 4؍ لاکھ لڑکیاں اس پابندی سے متاثر ہوئی ہیں۔ اگر یہ پابندی 2030ء تک جاری رہی، تو ادارے کے اندازے کے مطابق 40؍ لاکھ سے زیادہ لڑکیوں کو پرائمری سطح سے آگے تعلیم کے حق سے محروم کر دیا جائے گا۔ رسل نے اس صورتحال کو ’’تباہ کن ‘‘قرار دیا۔تعلیم کے علاوہ، اس پابندی کا صحت کی دیکھ بھال پر بھی سنگین اثر پڑنے کا خدشہ ہے، کیونکہ خواتین ڈاکٹروں اور دائیوں کی تعداد میں کمی سے افغان خواتین اور لڑکیوں کو ضروری طبی خدمات میسر نہیں ہوں گی۔

یونیسیف کے اندازے کے مطابق، اس کے نتیجے میں مزید  1600؍ زچگی کی اموات اور 3500؍ سے زیادہ نوزائیدہ بچوں کی اموات واقع ہو سکتی ہیں۔رسل نے کہاکہ ’’ یہ صرف اعداد و شمار نہیں ہیں — یہ گم شدہ زندگیوں اور ٹوٹے ہوئے خاندانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ اس سال کے اوائل میں، طالبان کی قیادت والی حکومت نے پاکستان کی میزبانی میں ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا، جہاں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ سلوک کو’’ صنفی عصبیت ‘‘قرار دیا تھا۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button