ایف ایس سی نے خواتین کے وراثتی حقوق سے محرومی کو "غیر اسلامی" قرار دے دیا

فیڈرل شریعت کورٹ (ایف ایس سی) نے فیصلہ دیا ہے کہ کوئی بھی رسم و رواج جو خواتین کو ان کے وراثتی حقوق سے محروم کرتا ہے، جو کہ قرآن مجید اور سنت کے مطابق انہیں حاصل ہیں، وہ غیر اسلامی اور قانونی طور پر کالعدم ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق، یہ فیصلہ سیدہ فوزیہ جلال شاہ کی جانب سے دائر کردہ ایک درخواست پر سنایا گیا، جس میں انہوں نے خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں رائج ایک مقامی رسم "چادر” یا "پرچی” کو چیلنج کیا تھا، جو خواتین کو ان کے آبائی جائیداد کے حقوق سے محروم کرتی ہے۔
ایف ایس سی نے ریاستی اداروں، بشمول انسانی حقوق کمیشن، پر زور دیا کہ وہ اس سماجی ناانصافی کے خلاف متحرک کردار ادا کریں۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ خواتین کو اکثر وراثت کے حقوق سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے، جسے "حق بخشوائی” کہا جاتا ہے۔
اگرچہ ذاتی ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست مسترد کر دی گئی، لیکن عدالت نے جزوی طور پر درخواست کو قبول کرتے ہوئے ان تمام رسوم و رواج کو غیر قانونی قرار دیا جو خواتین کے وراثتی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ عدالت نے حکام پر زور دیا کہ وہ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 498-A کے تحت ان مظالم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کریں، اور ریاست کی اس ذمہ داری کو اجاگر کیا کہ وہ اسلامی قانون کے مطابق خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔